نمائندہ امت :
ملک میں وافر مقدار میں گندم کے ذخائر ہونے اور عالمی منڈی میں گندم کے نرخوں میں کمی کے باعث رواں برس کے دوران آٹا مزید مہنگا نہیں ہوگا۔ جبکہ آئندہ ایک دو ہفتوں کے دوران آٹے کے نرخوں میں مزید کمی متوقع ہے۔ تاہم جولائی کے بعد آٹے کے نرخوں میں تھوڑا بہت اضافہ ہوگا لیکن اس کے باوجود بھی اس وقت عوام کو جن نرخوں پر آٹا مل رہا ہے۔ نرخ ان سے زیادہ نہیں ہوں گے۔
جبکہ رواں سیزن کے دوران نجی شعبے میں بھی گندم درآمد کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ جس کے باعث گزشتہ سیزن کے مقابلے میں عوام کو معیاری آٹا ملے گا۔ تاہم اگر معمول کے مطابق محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا نے گندم خریداری کا ہدف پورا کرنے کی آڑ میں گندم کے ٹرکوں کی کمیشن خوری کے عوض پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا تو اس سے آٹے کے نرخوں پر اثر پڑے گا۔ اس لئے حکومت کو سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دینی چاہیے کہ نجی شعبے میں گندم کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور نہ ہی گندم کے حمل و نقل پر پابندی عائد ہو۔
واضح رہے کہ گزشتہ چار برس کے دوران ملک میں گندم کے نرخ کا شدید بحران رہا۔ یہاں تک کہ عوام فی کلوگرام آٹا 180 روپے میں لینے پر بھی مجبور ہوئے۔ لیکن پی ڈی ایم اے کی حکومت نے نجی شعبے میں گندم درآمد کرنے کا جو مثبت فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد نگران حکومت نے کرایا۔ اس کے بعد آٹے کے نرخوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں سرکاری ریکارڈ کو دیکھا جائے تو گزشتہ سیزن کے دوران نجی شعبے میں 32 لاکھ ٹن سے بھی زائد گندم درآمد کی گئی۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ عالمی منڈی میں گندم کے نرخ کم ہونے کے باعث درآمدی گندم بیوپاریوں اور فلور ملز مالکان کو دیسی گندم سے بھی زیادہ سستی پڑ رہی تھی۔ پھر اس میں محکمہ خوراک کی کمیشن خوری کا سلسلہ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ فلور ملز مالکان کو محکمہ خوراک کی گندم اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑ رہی تھی۔ جہاں تک درآمدی گندم کی بات ہے، تو دو تین جہاز ابھی بھی آنے ہیں اور اپریل تک درآمدی گندم کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد بند ہوجائے گا۔
آٹے کے نرخوں کو اگر دیکھا جائے تو اس وقت فلور ملز مالکان فی کلوگرام ڈھائی نمبر آٹا 120 روپے کے حساب سے سپلائی کر رہے ہیں، اور عوام کو فی کلوگرام آٹا 130 روپے سے 140 روپے تک مل رہا ہے۔ اگر ضلعی انتظامیہ بہتر کارکردگی دکھائے تو صارفین کو مزید ریلیف مل سکتا ہے۔ جہاں تک رواں برس کے دوران آٹے کے نرخوں کی بات ہے، تو اب آٹے کے نرخوں میں مزید اضافے کی کوئی توقع نہیں۔ کیونکہ گزشتہ سیزن کے دوران سرکاری شعبے میں جو گندم خریدی گئی تھی۔ اس میں سے محکمہ خوراک پنجاب، محکمہ خوراک سندھ اور پاسکو کے پاس تقریباً 30 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر بچ گئے ہیں۔ اور اپریل میں نئے سیزن کا آغاز ہونا ہے۔
گندم کے ذخائر بچ جانے کے باعث سرکاری شعبے میں گندم کی خریداری کا ہدف بھی کم کیا گیا ہے۔ جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ سندھ کے محکمہ خوراک نے ریکارڈ میں ظاہر کیا ہے کہ اس کے پاس چار لاکھ ٹن گندم کے ذخائر بچ گئے ہیں۔ اس لئے رواں سیزن کے دوران مزید 9 لاکھ ٹن گندم خریدی جائے گی۔ اسی طرح محکمہ خوراک پنجاب کے پاس بھی 20 سے 25 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر بچ جائیں گے۔
اس لئے پنجاب حکومت بھی 45 لاکھ ٹن گندم کے بجائے رواں سیزن کے دوران 20 سے 25 لاکھ ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کرنے پر غور کر رہی ہے۔ مثبت بات یہ بھی ہے کہ رواں سیزن کے دوران ملک میں گندم کی فصل کی پیداوار بہتر ہوئی ہے۔ سرکاری شعبے میں گندم کی خریداری کم ہونے کی وجہ سے نجی شعبے میں زیادہ مقدار میں گندم ہونے کے باعث اب یہ ہوگا کہ سرکاری گندم کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ میں گندم کے نرخ کم ہوں گے اور فلور ملز مالکان کو سرکاری گندم کی زیادہ ضرورت نہیں پڑے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے فی سو کلو گرام گندم کی امدادی قیمت دس ہزار روپے مقرر کی ہے۔ لیکن اوپن مارکیٹ میں فی بوری گندم کے نرخ نو ہزار روپے تک گر جائیں گے۔ جس کے باعث آئندہ ایک دو ہفتوں کے دوران آٹے کی قیمتوں میں مزید کمی متوقع ہے۔ تاہم یہ اور بات ہے کہ گزشتہ برس حکومت نے فی سو کلو گرام گندم کی امدادی قیمت میں جو ساڑھے چار ہزار روپے کا اضافہ کیا تھا۔ اس سے آٹے کے نرخوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ گندم کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس وقت جو آٹے کے نرخ ہیں۔ وہ بھی زیادہ ہیں۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ رواں برس آٹے کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔