محمد علی:
روس اور چین دو طرفہ تجارت میں امریکی ڈالر سے نجات پانے والے پہلے عالمی شراکت دار بن گئے۔ روس نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تجارت تقریباً ڈی ڈالرائز ہوگئی ہے اور اب دو طرفہ تجارت آر ایم بی میں ہو رہی ہے۔
روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف کے مطابق روس اور چین کی باہمی تجارت میں اب ایک ڈالر بھی استعمال نہیں کیا جاتا۔ اس وقت 90 فیصد سے زائد سودے دونوں ممالک کی قومی کرنسیوں میں کیے جاتے ہیں۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے اسے روکنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود روس اور چین کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون فعال طور پر ترقی کر رہا ہے۔
اس حوالے سے ہفتے کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ چین اور روس کے درمیان عمومی اقتصادی اور تجارتی تبادلے ڈبلیو ٹی او کے قوانین اور مارکیٹ کے اصولوں کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس میں تیسرے فریق کی طرف سے ہدایات نہیں دی جا سکتیں۔ اس لیے تیسرے فریق کی جانب سے مداخلت یا زبردستی نہیں کی جانی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے میں چینی کمپنیوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کریں گے۔
برطانوی خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق چین نے گزشتہ برس روس سے سب سے زیادہ کاپر اسکریپ خریدا، جس میں امریکی پابندیوں کے پرخچے اڑگئے۔ روسی کاپر پروڈیوسر آر سی سی اور چینی کمپنیاں اس معاہدے میں نہ صرف بھاری ٹیکسوں سے بچنے میں کامیاب ہوئیں بلکہ چین اور روس پر عائد امریکی پابندیاں بھی کسی کام نہ آئیں۔
گزشتہ دنوں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چین کا دورہ کیا۔ بیجنگ آمد پر انٹونی بلنکن کا انتہائی سوکھا بلکہ تضحیک آمیز استقبال ہوا اور ان کیلئے سرخ قالین تک نہیں بچھایا گیا۔ تاہم چینی صدر شی چن پنگ نے انٹونی بلنکن سے ملاقات کی، جس میں دونوں ممالک نے ساتھ مل کر مسائل حل کرنے پر اتفاق کیا۔ اگلے روز یعنی جمعہ کو امریکا نے دفاعی صنعت میں تعاون پر چین کو نیا انتباہ جاری کر دیا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے جمعے کو روس کی ڈیفینس انڈسٹری کے لیے چین کی مدد پر "سخت تشویش” کا اظہار کرتے ہوئے چینی رہنماؤں کو خبردار کیا کہ واشنگٹن اس معاملے میں پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ بلنکن کے یہ تبصرے بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ اور دوسرے سینئر چینی رہنماؤں سے میٹنگز کے دوران ملاقات کے تھوڑی دیر بعد سامنے آئے۔ ان ملاقاتوں میں دونوں طاقتوں کے درمیان متعدد تنازعات کا احاطہ کیا گیا تھا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بلنکن کے ایجنڈے میں سر فہرست، چین کی جانب سے روس کو مائیکرو چپس، مشینی آلات، اور دوسری ایسی اشیا کی فراہمی شامل تھی جسے روس یوکرین کے خلاف اپنی جنگ میں ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ بلنکن نے کہا کہ میں نے صدر شی سے کہا کہ اگر چین اس مسئلے کو حل نہیں کرتا، تو ہم کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر چین نے روس کو یوکرین پر حملے میں استعمال ہونے والے ’’آئٹمز‘‘ کی فراہمی نہیں روکی تو پھر واشنگٹن کارروائی کرے گا۔ چین نے روس کے بارے میں اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف ایک بڑے تجارتی پارٹنر کے ساتھ عام اقتصادی لین دین میں مصروف ہے۔ جمعہ کو اپنے عوامی تبصروں میں، چین کے صدرشی نے روس یوکرین کے مسئلے کا ذکر نہیں کیا۔
اس کے بجائے وہ امریکا اور چین کے تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر مرکوز رہے۔ شی چن پنگ نے کہا کہ چین اور امریکا کو حریفوں کی بجائے شراکت دار بننا چاہیے،ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی بجائے ایک دوسرے کو کامیاب بنانے میں مدد کریں، جارحانہ مسابقت کی بجائے مشترکا بنیادوں کو تلاش کریں اور اختلافات کو پس پشت ڈالیں۔