ٹام سوزی اور جیک برگ مین کا خط ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا، فائل فوٹو
 ٹام سوزی اور جیک برگ مین کا خط ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا، فائل فوٹو

پی ٹی آئی اوورسیز مصالحتی مذاکرات کی مخالف

محمد قاسم:
پی ٹی آئی اوورسیز نے مصالحتی مذاکرات کی مخالفت کر دی۔ جبکہ ملک کے اندر موجود ورکرز کی اکثریت عمران خان کی رہائی کیلئے مذاکرات کے حامی ہیں۔ اگر مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر علی سیف کا کردار اہم ہو گا۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے فوجی قیادت سے رابطوں پر حکمران اتحاد میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی اندرونی تقسیم کا شکار ہے۔

خیبرپختون کے بعض اہم پی ٹی آئی رہنمائوں اور غیر سیاسی شخصیات نے عمران خان کو سمجھانا شروع کر دیا ہے کہ جیل میں قید سے جو فائدہ پی ٹی آئی کو ہو سکتا تھا ہوگیا۔ اب مزید جیل میں رہنا پارٹی اور خود عمران خان کیلئے سودمند نہیں۔ حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے سے فائدہ صرف نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہو گا۔ اور اگر حکومت چلتی رہ تو 5 سال بعد پی ٹی آئی کو اس کا نقصان ہوگا۔ جبکہ خیبرپختون حکومت عوام کو ریلیف کیلیے جو بڑے منصوبے شروع کرنا چاہتی ہے، وہ بھی تاخیر کا شکار ہوں گے۔

پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کا زیادہ فوکس عمران خان کی رہائی اور پارٹی کے اندر اپنی من مانی کرنے والوں کو کنٹرول کرنے پر ہوگا۔ جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ وفاق میں موجود نون لیگ، ایم کیو ایم اور پپلز پارٹی بھی یہی چاہتی ہیں کہ کے پی حکومت عوامی ریلیف منصوبوں کے بجائے مزاحمتی سیاست کا شکار رہے۔ ذرائع کے مطابق ان رہنما اور شخصیات کے سمجھانے کے بعد عمران خان نے جیل سے دو اہم فیصلوں کی ہدایت کر دی ہے۔

ایک وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو صوبائی حکومت چلانے کیلئے مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ وہ جن کو چاہیں کابینہ میں رکھ لیں اور یہ کہ کابینہ یا پارٹی فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو فوری طور پر باہر کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔ جبکہ دوسرا فیصلہ عسکری قیادت کے ساتھ ملکی معاملات چلانے کیلئے مذاکرات کی اجازت ہے۔ ذرائع کے بقول پہلی بار نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ آئینی معاملات پر مذاکرات کی اجازت دی گئی ہے۔ جس کی تصدیق شبلی فراز نے بھی کی ہے۔

ذرائع کے مطابق فوجی قیادت کے ساتھ رابطوں کا آغاز کور ہیڈ کوارٹر میں کابینہ اجلاس کے بعد ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ کے پی حکومت نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان تنازعات کے حل کیلئے فوج سے تعاون مانگ لیا ہے۔

اس حوالے سے صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے میڈیا کو تصدیق کی ہے کہ فوج سے رابطہ رکھنا غلط نہیں۔ کیونکہ فوج پاکستان کی ہے۔ اور اگر پی ٹی آئی فوج سے کوئی بات چیت کر رہی ہے تو ملک کی بہتری کیلئے کر رہی ہے۔ فوج اس ملک کی سیکورٹی کی ذمہ دار ہے اور صوبہ مشکلات کا شکار ہے۔ عوام نے پی ٹی آئی پر اعتماد کیا ہے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وفاقی حکومت صوبے کا حق نہیں دے رہی۔ جس کی وجہ سے سیکورٹی کیلئے پیسے نہیں اور اسی لیے فوج سے بات کریں گے۔

تاہم دوسری جانب ذرائع کے مطابق اگر فوجی قیادت کے ساتھ پی ٹی آئی کے مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اور صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کا کردار اہم ہوگا۔ کیونکہ اس سے قبل کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں حکومت اور مقتدر حلقوں کی نمائندگی بیرسٹر محمد علی سیف نے کی تھی۔ سیکورٹی اداروں خاص کر فوج کے اہم حصوں کا بیرسٹر محمد علی سیف پر ماضی میں اعتماد تھا اور اب بھی ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی صورت میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کچھ آئینی قانون سازی، معاشی اصلاحات اور ملک میں استحکام کے حوالے سے معاملات طے کیے جائیں گے۔ جس سے ملک میں استحکام آئے گا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اوورسیز نے شہریار آفریدی اور مرکزی ترجمان رئوف حسن نے مذاکرات کی مخالفت کردی ہے۔ جبکہ ملک کے اندر موجود پی ٹی آئی ورکرز کی اکثریت مذاکرات کی حامی ہے۔