فائل فوٹو
فائل فوٹو

سائفر کیس، کہیں ہمارے خلاف بھی ایف آئی آر نہ ہو جائے،چیف جسٹس عامر فاروق

اسلام آباد:سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کیخلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامر فاروق نےایف آئی اے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا ہم نے سائفر گائیڈ لائنز کا کتابچہ واپس کردیا ہے؟ایف آئی اےپراسیکیوٹر نے کہاکہ جی ہاں، آپ نےواپس کر دیا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ نہ ہو پھر ہمارے خلاف بھی ایف آئی آر نہ ہو جائے۔

چیف جسٹس عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی، اس دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدراور ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

دوران سماعت وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ چارج میں تھا 9 مارچ کوسابق وزیراعظم کو سائفر دیا گیا، میں سوچ رہا تھا یہ کہیں سے مجھے سنائی دے لیکن سنائی نہیں دیا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ صاحب کا دلائل کے حوالے سے آج پانچواں دن ہے، پراسیکوشن اگرکیس لمبا کھینچ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے سنبھالنا پڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تجسس ہے کہ حامد علی شاہ کب اپنے دلائل مکمل کریں گے۔ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ دلائل کے لیے ایک دن لوں گا، سلمان صفدر نے خود 14 دن وقت لیا ہے۔سلمان صفدر نے کہا کہ سرکار جتنا وقت لے رہی ہے اتنا کیس کو سنبھالنا پڑرہا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا 342 کا بیان وکلا کی غیرموجودگی میں ہوا تھا ؟ اگر ایسا ہے تو کیا اثرات ہوتے ہیں؟

جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 40 سوالات کے جواب میں آپ کو تفصیلاً لکھ کر دوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ملزمان کے وکیل 342 کے بیان کے وقت نہیں تھے تو اس کا اثر ہوگا یا نہیں؟

جس پر اسپیشل پراسیکیوتڑ نے کہا کہ اعظم خان نے بھی غیرمعمولی حالات میں بیان دیا تھا، اعظم خان نے جب بیان دیا تو ان کے ہاتھ میں قرآن پاک تھا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ صاحب جیسے کیس چلا رہے ہیں میں ان کو استاد مان گیا ہوں۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعظم خان نے مقدس کتاب ہاتھ میں رکھ کر بیان دیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا وہ مقدس کتاب قرآن پاک تھی؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی قرآن پاک ہاتھ میں تھا اس لیے ان کے بیان کو ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔

اس کے بعد پراسیکیوٹر نے بانی پی ٹی آئی کا بطور ملزم ریکارڈ کرایا گیا بیان پڑھ کر سنایا۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے بانی پی ٹی آئی سے سوال پوچھا کیس کیوں بنا اور گواہوں نے شہادتیں کیوں دیں؟ اس سوال کا جواب بانی پی ٹی آئی نے دیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں دستاویز گم ہوجانے کی جو سزا ہے وہ کس دستاویز کی بات ہے؟ یا کچھ نہیں لکھا ہوا؟

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ایف آئی اے نے انکوائری کی تھی، دستاویز گم ہونے کو قابل احتساب ہونے کے ساتھ پڑھا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم آفس میں پتہ نہیں کتنی چٹھیاں آتی ہوں گی۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا قابل احتساب دستاویز کو ہم کوڈ کہہ سکتے ہیں؟

ایف آئی اے پراسکیوٹر نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ ہے بانی پی ٹی آئی کے پاس سائفر تھا، دستاویزات کی چار اقسام ہیں۔

عدالتنے کہا کہ ان چاروں اقسام میں سے کوئی بھی دستاویز گم ہوجائے تو کیا جرم ہوگا؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ بالکل دستاویز گم ہونے کی صورت میں مقدمہ درج ہوگا۔

ایف آئی اے پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ ان کی اپیل ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں سقم پر بنیاد کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بیرون ممالک سے آنے والے تمام دستاویزات کانفیڈنشل ہوتے ہیں؟ اگر کوئی دستاویز قابلِ احتساب نہیں اور وہ گم جائے پھر تو خیر ہے نا؟ وزیراعظم آفس میں تو روزانہ ایک ہزار چٹھیاں آتی ہوں گی، دانستہ نہیں لیکن اُن میں سے کوئی ایک آدھ مِس پلیس بھی ہو جاتی ہوگی۔

چیف جٹس نے کہا کہ ہم نے سائفرگائیڈ لائنز کا کتابچہ واپس کردیا ہے؟ پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ جی، آپ نے وہ واپس کر دیا ہے۔

جس پر چیف جسٹس بولے یہ نہ ہو کہ پھر ہمارے خلاف بھی ایف آئی آر ہوجائے۔

چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ جو گائیڈ لائنز ہیں ان کو ہم کیا کہیں گے؟ حامد علی شاہ نے کہا کہ اس کو سکیورٹی آف سائفر گائڈ لائنز کہتے ہیں جو کابینہ ڈویژن نے تیار کی ہیں۔

عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ سائفرگائیڈ لائن کتابچہ سلمان صفدر کو دے دیں۔

پراسیکیوٹر نے کہاکہ قانون کہتا ہے سائفر گم یا چوری ہونے پروزارت خارجہ اور آئی بی کو آگاہ کرنا ہوتا ہے،سائفر کی 9کاپیوں میں سے ایک کاپی وزیراعظم ہاؤس سےواپس نہیں آئی،باقی 8کاپیوں کو ضائع کردیاگیا،ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے وزارت خارجہ رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت 6مئی تک ملتوی کردی گئی۔