میڈیکل اسٹورز سے اٹھائے گئے سیمپل جانچ میں غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ نکلے، فائل فوٹو
میڈیکل اسٹورز سے اٹھائے گئے سیمپل جانچ میں غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ نکلے، فائل فوٹو

معروف دوا ساز کمپنی لوگوں کی زندگی سے کھیلتی رہی

سید نبیل اختر:
پاکستان میں معروف غیرملکی دوا ساز کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن (جی ایس کے) انسانی زندگیوں سے کھیلتی رہی۔ معیاری دوا بنانے کی دعویدار کمپنی غیرمعیاری دوا فروخت کرنے میں ملوث نکلی۔ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر کمپنی کے سی ای او پر لاکھوں روپے جرمانہ عائد کردیا۔ کمپنی کے کوالٹی کنٹرول انچارج اور وارنٹیئر کو جرمانہ اور دو دو سال قید کی سزا بھی سنادی۔ جبکہ ڈرگ کورٹ نے افغانستان اور بھارت سے اسمگل جعلی، غیر معیاری اور غیر اندراج شدہ ادویات کراچی لاکر فروخت کرنے والے گروہ کے 8 مجرموں کو بھی سزا سنادی۔ ڈرگ مافیا شہریوں کو جعلی ادویات دھڑلے سے فروخت کرتی رہی۔ میڈیکل اسٹور سے اٹھائے گئے سیمپل جانچ میں غیر معیاری اور ان رجسٹرڈ نکلے۔

جی ایس کے (کراچی) کا معروف پروڈکٹ سیپٹران حسن ابدال کے ایک میڈیکل اسٹور سے معمول کی جانچ کیلئے اٹھایا گیا۔ جو جانچ میں غیر معیاری ثابت ہوا۔ ڈرگ انسپکٹر نے عمر زیب عباسی کی جانب سے میسرز جی ایس کے پاکستان لمیٹڈ کے عہدیداران کے خلاف شکایت درج کرائی گئی۔ شکایت کنندہ نے الزام عائد گیا کہ 11 اکتوبر 2018ء کو صوبائی ڈرگ انسپکٹر تحصیل حسن ابدال عظمیٰ خالد کی جانب سے جی ایس کے پاکستان لمیٹڈ کراچی کی تیار کردہ ٹیبلٹ سیپٹران جس کا بیچ نمبر HSDBD اور فارم نمبر 4 سیمپل جو میسرز گلزار میڈیکل اسٹور تحصیل حسن ابدال سے لیا گیا تھا.

ٹیسٹ کیلئے ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری راولپنڈی بھیجا گیا۔ 11 دسمبر 2018ء کو لیبارٹری نے رپورٹ نمبر TRA.No.01-40000052/DTL بھیجی۔ جس میں ٹیبلٹ سیپٹران بیچ نمبر HSDBD کے سیمپل کو غیر معیاری قرار دیا گیا۔ جس پر میسرز جی ایس کے پاکستان لمیٹڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر و سی ای او ارم شاکر، پروڈکشن منیجر ثاقب عظمت، کوالٹی کنٹرول انچارج خرم رفیق احمد اور وارنٹیئر ہارون الرشید کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

8 فروری 2023ء کو تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ تاہم تمام ملزمان کی جانب سے صحت جرم سے انکار کیا گیا۔ ٹرائل کے دوران پراسیکیوشن کی جانب سے 5 گواہان کے بیانات عدالت میں قلمبند کرائے گئے۔ گواہوں میں صوبائی ڈرگ انسپکٹر تحصیل حسن ابدال عظمیٰ خالد، شکایت کنندہ صوبائی ڈرگ انسپکٹر ضلع اٹک عمر زیب عباسی، چوکیدار ٹی ایچ کیو اسپتال تحصیل حسن ابدال خرم شہزاد، سابق سیکریٹری پی کیو سی بی پنجاب محمد شفیق خان اور سابق سیکریٹری پی کیو سی بی پنجاب شاہین اقبال شامل تھے۔

وکیل صفائی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ڈرگ انسپکٹر نے اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے ملزمان کو ملوث کیا ہے۔ جبکہ ڈرگ انسپکٹر کی جانب سے قوانین پر عمل درآمد بھی نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ جب سیمپل لیا گیا تھا تو اس وقت ارم شاکر منیجنگ ڈائریکٹر و سی ای او کے عہدے پر تعینات نہیں تھیں۔ جبکہ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی رپورٹ بھی 60 دن کی تاخیر سے موصول ہوئی۔ جو قانون کے برخلاف ہے۔ اس کے علاوہ جو دوا غیر معیاری قرار دی گئی۔ وہ ڈرگ انسپکٹر کی جانب سے سیز کرنے کے بعد ناقص اسٹوریج کرنے سے ہوئی ہے۔ لہذا استدعا ہے کہ ملزمان کو بری کیا جائے۔

سرکاری وکلا کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ملزمان غیر معیاری ادویات کی فروخت اور غلط وارنٹی جاری کرنے میں ملوث پائے گئے۔ جبکہ تمام گواہان نے ملزمان کے خلاف بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔ لہذا استدعا ہے کہ ملزمان کو سزا دی جائے۔ عدالت میں جی ایس کے، کی جانب سے غیر معیاری دوا بنانے اور اسے فروخت کرنے کا جرم ثابت ہوگیا۔ جس پر میسرز جی ایس کے پاکستان لمیٹڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر و سی ای او ارم شاکر پر غیر معیاری ادویات کی فروخت اور غلط وارنٹی جاری کرنے سمیت دیگر جرم میں مجموعی پر 47 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی پر ملزمہ کو مجموعی طور پر 8 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق جرم ثابت ہونے پر میسرز جی ایس کے پاکستان لمیٹڈکے پروڈکشن منیجر ثاقب عظمت پر غیر معیاری ادویات کی فروخت اور غلط وارنٹی جاری کرنے کے جرم میں 2 سال قید کی سزاکا حکم دیا گیا۔ عدالت نے ملزم پر مجموعی طور پر 6 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ جرمانے کی عدم ادائیگی پر ملزم کو مجموعی طور پر مزید 9 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔ اسی طرح میسرز جی ایس کے پاکستان لمیٹڈ کے کوالٹی کنٹرول انچارج خرم رفیق احمد پر غیر معیاری ادویات کی فروخت اور غلط وارنٹی جاری کرنے کے جرم میں 2 سال قید کی سزاکا حکم دیا۔ عدالت نے ملزم پر مجموعی طور پر 6 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا۔

جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں ملزم کو مجموعی طور پر مزید 9 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔ جبکہ میسرز جی ایس کے پاکستان لمیٹڈکے وارنٹیئر ہارون الرشید پر غیر معیاری ادویات کی فروخت اور غلط وارنٹی جاری کرنے کے جرم میں 2 سال قید کی سزاکا حکم دیا۔ عدالت نے ملزم پر مجموعی طور پر 6 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں ملزم کو مجموعی طور پر مزید 9 ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔

قبل ازیں پنجاب کے علاوہ کراچی کے ڈرگ کورٹ میں بھی بھارت اور افغانستان سے جعلی، غیرمعیاری اور غیر اندراج شدہ ادویات کراچی لاکر فروخت کرنے والے گروہ کے 8 مجرموں کو بھی جرمانے اور قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ معلوم ہوا ہے کہ کراچی میں جعلی، غیر معیاری اور غیر اندراج شدہ ادویات کی بھرمار پر 2008ء میں صوبائی اور وفاقی ڈرگ انسپکٹرز نے ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی و حیدرآباد، مجسٹریٹ اور پولیس کی مدد سے مکروہ دھندے میں ملوث ملزمان کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کیے۔ جو 2012ء تک جاری رہے۔ کراچی سمیت سندھ کے بڑے شہروں سے اربوں روپے مالیت کی تین اقسام کی دوائیں پکڑی گئیں اور درجنوں افراد گرفتار کرلئے گئے۔

مذکورہ ملزمان نے عدالت سے ضمانتیں حاصل کرلیں۔ ڈرگ کورٹ کے موجودہ چیئرمین سید ذوالفقار علی شاہ، ممبران ڈاکٹر اعجاز احمد خانزادہ اور محمد عارف مٹھانی نے ڈرگ کورٹ میں دائر کیسز نمٹانے شروع کردیئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ایبٹ لیبارٹریز پاکستان اور اس کے پروپرائیٹر، وارنٹیئر، تجزیہ کار کے خلاف سزا سنائی گئی اور گزشتہ روز کراچی اور حیدرآباد سے پکڑی گئی کروڑوں روپے مالیت کی جعلی، غیر معیاری اور غیر اندراج شدہ ادویات کے 6 کیسز میں نامزد ملزمان عبدالحبیب، فیصل حبیب، عمران حبیب، دانش، تنویر، عمیر خان اور حامد خان کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں۔ مذکورہ مقدمات میں نامزد ایک ملزم فیضان مفرور ہے اور دوسرا ملزم ریحان وفات پاچکا ہے۔

مذکورہ مجرمان کے خلاف کارروائی کرنے والے صوبائی ڈرگ انسپکٹر (ریٹائرڈ ) عبدالرحیم عباسی نے بتایا کہ ’’ہم نے کراچی کی بڑی میڈیسن مارکیٹ کچھی گلی میں قائم نظامیہ میڈیسن مارکیٹ کی شاپ نمبر 8 پر چھاپہ مارا تو وہاں سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وہ دوائیں پکڑی گئیں جو ہمیں مشکوک لگیں۔ مذکورہ چھاپے میں بعض ادویات ایسی بھی تھیں جو پاکستان میں فروخت نہیں کی جاسکتیں۔ انہیں اَن رجسٹرڈ دوا کہتے ہیں۔ دو دکانوں میں موجود تقریباً تمام اسٹاک ہی جعلی دواؤں کا لگ رہا تھا، جو بعد میں لیبارٹری کی جانچ میں جعلی کے ساتھ ساتھ غیر معیاری بھی ثابت ہوا۔

ان دکانوں سے برآمد ادویات کے علاوہ دواؤں کا بڑا اسٹاک موتی مسجد نیو چالی اور نظامیہ مارکیٹ کی دوسری منزل پر قائم گوداموں سے تحویل میں لیا گیا۔ ہم نے اس آپریشن میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کے کئی ٹرک تحویل میں لیے۔ ملزمان کو گرفتار کرکے دوا کے سیمپلز لیبارٹری بھجوائے گئے۔ مذکورہ کیسز میں میرے تین کیس تھے۔ جن میں 39/2009 , 36/31, 2009/2009 شامل ہیں۔ جس میں ملزمان حبیب، ریحان، فیضان اور فیصل کو مقدمہ میں شامل کیا گیا۔ تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ مذکورہ ملزمان نے بیشتر دوائیں بھارت اور افغانستان سے اسملگنگ کے ذریعے حاصل کیں۔ جبکہ بعض ادویات کا خام مال (فنش پروڈکٹ) کراچی لاکر سائٹ ایریا کے ایک گھر میں قائم فیکٹری میں پیک کیا گیا۔ مذکورہ فیکٹری پر بھی چھاپہ مارا گیا اور کروڑوں روپے کا فنش پروڈکٹس تحویل میں لے لیا گیا۔

مذکورہ مجرمان نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ وہ یہ مال باڑہ مارکیٹ پشاور سے خریدتے ہیں اور کراچی میں اس کی پیکنگ کرکے مارکیٹ میں سپلائی کرتے ہیں۔ ایف آئی اے کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر خلیق الزماں نے فیصلہ کیا کہ کراچی سے ایک ٹیم باڑہ جائے گی اور وہاں سے ملزمان کو گرفتار کرکے لائے گی۔ تاہم وہاں کی مزید تفصیلات معلوم کیں تو پتا چلا کہ باڑہ کی فیکٹریوں کا ایک دروازہ پاکستان میں کھلتا ہے اور دوسرا دروازہ آزاد ایریا میں۔ ایف آئی اے کو بتایا گیا وہاں کارروائی کرنے کیلئے فوج کی کم از کم ایک بریگیڈ درکار ہوگی۔ لہذا کراچی سے گرفتار ہونے والے ملزمان کو سزا دلائی جائے۔ تاکہ کراچی کے میڈیسن فروش علاقہ غیر سے مال منگواکر کراچی میں فروخت کرنے سے باز رہیں۔

مذکورہ مقدمات میں جو دوائیں برآمد ہوئیں ان میں voren کے جعلی انجکشن، centrum کی جعلی اور غیر معیاری گولیاں،Omeprazole کے کیپسولز، amaryl، cecon اور Panadol کی ٹیبلٹس سمیت درجنوں جان بچانے والی ادویات شامل ہیں۔ پکڑی جانے والی دواؤں میں بھارتی دوا ساز کمپنی میسرز کومبیٹک گلوبل کیپلیٹ انڈیا، میسرز ایمامی اور ہیمانی انڈیا کے پروڈکٹس بھی تھے۔ اسی کے ساتھ پاکستان میں ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں جی ایس کے، سنوفی ایونٹس، مارٹن ڈاؤ کے پروڈکٹس بھی پکڑے گئے جو جانچ پر جعلی نکلے۔ بعض ادویات ایسی بھی برآمد ہوئیں جن کی جانچ پر مالکیول تو موجود تھا۔ لیکن مطلوبہ مقدار میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان ادویات کو غیر معیاری قرار دیا گیا۔

مذکورہ کیسز 2008ء سے عدالت میں زیر التوا رہے۔ تاہم عدالت نے کیسز کا فیصلہ سنادیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق کیس نمبر 2009/31 ،2009/36 اور 2009/39 میں ملزمان عبدالحبیب اور محمد فیصل کو ایک ماہ قید اور ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ جبکہ ملزم فیضان کو اشتہاری قرار دیا گیا اور اس کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کردیئے گئے۔ اسی کیس میں نامزد ملزم ریحان کے انتقال کے باعث اس پر کیس ختم کردیا گیا۔

کیس نمبر 2009/55 میں ملزمان عبدالحبیب، دانش سلیم اور تنویر کو ایک ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ مذکورہ کیس میں ملزم اقبال شاہ کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے گئے۔ کیس نمبر 2011/64 میں ملزمان عمران اور فیصل کو ایک ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ کیس نمبر 2016/27 میں ملزمان عمیر خان اور حامد خان کو ایک ماہ قید اور ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔