صوبائی حکومت نے زرعی زمینوں کے نقصانات کے ازالے کا اعلان نہیں کیا- کسان اور مالکان نے امداد کا مطالبہ کردیا، فائل فوٹو
صوبائی حکومت نے زرعی زمینوں کے نقصانات کے ازالے کا اعلان نہیں کیا- کسان اور مالکان نے امداد کا مطالبہ کردیا، فائل فوٹو

خیبرپختونخوا کے 14 اضلاع میں فصلیں- باغات اور سبزیاں برباد

محمد قاسم:
پی ڈی ایم اے نے صوبہ خیبرپختون میں بارشوں سے زرعی زمینوں کے دریا برد ہونے، فصلوں اور پھلوں کے نقصانات کی رپورٹ جاری کردی۔ پشاور، چارسدہ، نوشہرہ اور ڈی آئی خان میں اربوں روپے کی زرعی اراضی برباد ہوئی۔ جبکہ صوبے کے 14 اضلاع میں کھڑی فصلیں، باغات اور سبزیاں تباہ ہوئیں۔ تباہ ہونے والے فصلوں اور پھلوں کی مالیت تقریباً 80 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ سب سے زیادہ پشاور میں نقصان پہنچا۔

رپورٹ کے مطابق صوبہ بھر میں 28 ہزار 804 ایکڑ پر گندم کی فصل کو نقصان پہنچا۔ پشاور میں 12 ہزار 904 ایکڑ پر سبزیاں اور 27 ایکڑ پر پھلوں کو نقصان پہنچا۔ اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان میں 7 ہزار 290 ایکڑ اراضی پر گندم اور 371 ایکڑ اراضی پر جانوروں کے چارہ کو نقصان پہنچا۔ مردان میں 5 ہزار 409 ایکڑ اراضی پر گندم کی فصل متاثر ہوئی۔ شمالی وزیرستان میں 673 ایکڑ، اورکزئی میں 584 ایکڑ، نوشہرہ میں 449 ایکڑ، چارسدہ میں 338 ایکڑ اور سوات میں 132 ایکڑ اراضی پر گندم کی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ ان مذکورہ اضلاع میں ٹماٹر، مٹر، پیاز اور دیگر سبزیوں کے علاوہ آڑو اور دیگر پھلوں کو بھی بارشوں نے نقصان پہنچایا۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے صرف گھروں اور جاں بحق افراد کیلئے مالی تعاون کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ زرعی نقصانات کے حوالے سے صرف رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جو مرتب ہوگئی ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔ کسانوں اور باغات کے مالکان نے حکومت سے نقصانات کا ازالہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

سوات میں آڑوئوں کے باغات رکھنے والے سلیم خان اور ممتاز احمد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کا نقصان لاکھوں میں ہے۔ کیونکہ وہ دو سال کیلئے اپنے باغات پنجاب اور دیگر شہروں کے تاجروں سے ایڈوانس رقم لے کر ان کے حوالے کردیتے ہیں اور وہ ان پھلوں کو پورے پاکستان سمیت عرب ممالک کو بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ اس سال بارشوں کی وجہ سے پھول لگنے کے دوران ہی بارشوں اور ژالہ باری نے پورے باغات تباہ کردیے۔ اب ایڈوانس کی رقم ابھی ان کے ذمہ ہے۔ ہم لوگوں نے حکومتی اہلکاروں کو صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ لیکن سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ آپ کے باغات سلامت ہیں۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سال پھلوں کے امکانات انتہائی کم ہیں اور ان کے نقصانات کا ازالہ بھی ممکن نہیں۔ اس لئے حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ماہرین کو بھجوائیں۔ جو نقصانات کا جائزہ لیں۔ کسانوں کے مطابق ایک طرف انہوں نے کھاد وغیرہ قرض پر لی ہے اور دوسری جانب حکومت کی جانب سے اب تک ان کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔ جس کی وجہ سے وہ پریشان ہیں۔ مردان کے عبداللہ اور چارسدہ کے قیصر شاہ کی نہ صرف فصلیں تباہ ہوئیں۔ بلکہ ان کے جانوروں کا چارہ بھی تباہ ہوگیا ہے۔

ان کے بقول حکومتی اہلکاروں نے صرف اراضی کی تعین کیا ہے کہ کتنی اراضی بارش سے تباہ ہوئی، دریا برد ہوئی اور کتنی ایکڑ فصل کو نقصان پہنچا۔ لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ کتنے روپے کی فصلیں اور سبزیاں تباہ ہوئی اور یہ کہ ان کو رقم یا امداد کب ملے گی۔ اس حوالے سے پی ڈی ایم اے کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کا کام صرف رپورٹ مرتب کرنا تھا اور بارشوں میں ایمرجنسی کا کام کرنا ہے۔ باقی حکومت امداد دیتی ہے یا نہیں۔ یہ حکومت کا کام ہے۔ ہم نے زرعی ماہرین اور مقامی انتظامیہ کی مدد سے رپورٹ تیار کی ہے۔

ذرائع کے مطابق جاں بحق اور زخمیوں کی امداد جلد مل جاتی ہے۔ جبکہ گھروں کیلئے رقم بھی اس لئے جلد جاری کردی جاتی ہے تاکہ متاثرہ خاندان کی بحالی جلد ممکن ہو۔ تاہم فصلیں، سبزیاں اور پھل کے حوالے سے بھی حکومت کسانوں کی مدد کرے۔

ایک اہم ذریعے کے مطابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو تقویت پہنچانے کیلئے ڈیرہ اسماعیل خان کے نقصانات کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا۔ جبکہ اس سال کرک اور لکی مروت میں بھی نقصان ہوا ہے۔ لیکن اسے رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع شانگلہ، سوات، چترال، دیر اپر اور دیر لوئر ہے۔ لیکن صرف سوات کو رپورٹ کا حصہ بنایا گیا اور باقی ماندہ اضلاع کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔