مذہبی جماعتوں نے پنجاب حکومت کا فیصلہ طلبہ میں فسق و فجور پھیلانے کے مترادف قرار دے دیا، فائل فوٹو
مذہبی جماعتوں نے پنجاب حکومت کا فیصلہ طلبہ میں فسق و فجور پھیلانے کے مترادف قرار دے دیا، فائل فوٹو

تعلیمی اداروں میں مقابلہ موسیقی کیخلاف مظاہرے

نواز طاہر:
پنجاب کے تعلیمی اداروں میں موسیقی کے مقابلوں کا حکم نامہ جاری کیے جانے کیخلاف پنجاب بھر میں منظم احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ لاہور سمیت صوبہ کے تمام بڑے شہروں میں پیر کے روز ان مظاہروں کا آغاز ہوا اور نوٹی فیکیشن واپس لیے جانے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر مریم نواز حکومت کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔ جس کے بعد یہ مظاہرے تسلسل کے ساتھ آرٹس کونسلز کے باہر اور اس کے بعد ہر سڑک پر پھیلانے کے لائحہ عمل کی اطلاعات ہیں۔ ان مظاہروں میں طلبا و طالبات، اساتذہ اور والدین شریک ہوںگے۔

واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں میں موسیقی کے مقابلوں کا نوٹی فیکیشن جاری کیا تھا تو اس پر مذہبی جماعتوں، بالخصوص جماعت اسلامی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور یہ فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ طلبہ تنظیموں نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی تھی۔ لیکن یہ فیصلہ واپس نہیں لیا گیا اور اب معاملہ سڑکوں پر آگیا ہے۔ ایک جانب طلبہ تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی کی خواتین نے پیر کو لاہور پریس کلب کے ساتھ ساتھ پنجاب کے بڑے شہروں میں مظاہرے کیے۔ اس سے پہلے طلبہ کی آل پارٹیز کانفرنس میں متحد ہوکر ہر سطح پر آواز اٹھانے اور اس کی مزاحمت کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں مرکزی مسلم لیگ، جعفریہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، نظریاتی اسٹوڈنٹس فیڈریشن، تحریک طلبا اہلحدیث، اہلحدیث اسٹوڈنٹس فیڈریشن، انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن، جمیعت طلبا اسلام، انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم اسٹوڈنٹس مومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) شامل تھیں۔

لاہور میں ہونے والے مظاہرے میں مختلف تعلیمی اداروں کے تدریسی عملے اور جماعت اسلامی کی خواتین نے بچوں سمیت شرکت کی اور حکومتی فیصلے کیخلاف نعرہ بازی کی گئی۔ مظاہرین نے حکومتی نوٹیفیکیشن کے اجرا کی مذمت کی۔ کتبوں پر ’’ہمارے بچوں کو ناچنے پر انعام مت دو، انہیں اسکالر شپ دو‘‘۔ اور ’’موسیقی کے بجائے تعلیم پر سرمایہ کاری کرو‘‘، کے نعرے درج تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا پُرامن احتجاج حکومت پنجاب پر موسیقی کے مقابلے رکوانے کیلئے دباؤ بڑھانا اور عوام الناس کو اس غیر اسلامی فعل کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہے۔

اس موقع پر ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے خواتین رہنمائوں حمیرا طارق و ڈپٹی سیکریٹریز ثمینہ سعید، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، ڈاکٹر زبیدہ جبیں، صفیہ ناز، ربیعہ طارق، صدف عمران، راشدہ شاہین اور مہ جبیں نے کہا کہ، پاکستان اسلامی ریاست ہے۔ وطن عزیز میں اسلام کے منافی ہر سرگرمی قابل گرفت ہے۔ موسیقی کے مقابلے اور نوجوان نسل کو اس کی ترغیب دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ حکومت پنجاب یہ مقابلے فی الفور منسوخ کرے۔

ایک سوال کے جواب میں ربیعہ طارق کا کہنا تھا کہ ’اسلام میں لغو باتوں اور فحش کاموں کی ترغیب دینے والا، شدید قابل مذمت اور سزا کا حق دار ہے۔ تعلیمی اداروں میں موسیقی کے مقابلے منعقد کرانا اسلام اور آئین پاکستان کے منافی ہے۔ پاکستان اسلامی ریاست ہے۔ اس وقت ملک کے حالات اس بات کے متحمل نہیں کہ موسیقی جیسے غیر شرعی پروگرام پر وقت اور وسائل ضائع کیے جائیں۔ پنجاب حکومت کا فرض ہے کہ نوجوانوں کیلئے نصابی و غیر نصابی تعلیم، اخلاقی تربیت، مثبت سرگرمیاں، روزگار کی اسکیمیں اور ہنر سکھانے کے مواقع فراہم کرے اور ملک کی تعمیر و ترقی کو فروغ دے۔

دنیا بھر میں فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لئے مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی مظالم کا شکار معصوم فلسطینی بچے آہ و بکا کر رہے ہیں۔ جن کی حمایت اور مدد کیلئے حکمران پارٹی کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت پنجاب کے پاس ناظرہ قرآن کی کتب کی اشاعت کیلئے فنڈز نہیں۔ اس سال تعلیمی کتب کے پیکج میں قرآنی کتب فراہم نہیں کی گئیں۔ لیکن حکومتی ذمہ داران بے پناہ فنڈز استعمال کرکے بے حیائی پر مبنی تقریبات کے اہتمام میں مصروف ہیں۔ ڈگریاں تھامے نوجوانوں کو دینے کیلئے بھی کچھ نہیں۔ اس کے برعکس موسیقی جیسے غیر شرعی فعل سے ان کا دل بہلایا جا رہا ہے‘۔

مظاہرے میں شریک ایک کالج کی پرنسپل کا کہنا تھا کہ، ’ہم پاکستان کے نظریے کا تحفظ کریں گی۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔ اسے بے حیائی کو فروغ دینے اور ناچ گانے کیلئے نہیں بنایا گیا‘۔ مظاہرے کے بعد اگلا مرحلہ آرٹس کونسلوں کے سامنے احتجاج ہوگا۔ اس احتجاج کی حکمتِ عملی کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر مشاورت تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ اسے محراب و منبر سے لے کر گلی کوچوں تک پھیلایا جائے گا۔ تاہم ابتدائی طور پر پنجاب حکومت کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ پنجاب حکومت اس ایجنڈے پر آگے بڑھ رہی ہے، جو پرویز مشرف نے شروع کیا تھا۔