محمد قاسم:
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے نوجوانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کرنے کی منصوبہ بندی کر لی۔ صوبائی ملازمین کی قبل ازوقت ریٹائرمنٹ پر پابندی عائد کردی گئی۔ مدت ملازمت میں عمر کی حد میں 5 سال اضافے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق نوجوانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی صوبائی حکومت نے نوجوانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرلی ہے۔ صوبائی حکومت نے وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ خیبرپختونخواہ میں قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لینے والوں کی فہرستیں فوری طور پر ارسال کریں اور تمام محکموں کو پابند بنایا جائے کہ حکومت کے فیصلے تک کسی کو قبل ازوقت ریٹائرمنٹ نہیں ملے گی اور حکومت کی جانب سے مکمل پالیسی آنے کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پنشن کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ پنشن کے حوالے سے جاری مذاکرات میں اصلاحات کے نام پر تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ ذرائع نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر گریڈ سولہ کے ملازم 30 جون 2024ء کو مجوزہ اصلاحات سے قبل ریٹائرمنٹ لینا چاہتے ہیں تو ان کو پنشن کی تمام سہولیات کے ساتھ گھر، 31 لاکھ تک رقم ملے گی اور اگر مجوزہ اصلاحات نافذ ہوگئیں تو ان سرکاری ملازموں کو یکم جولائی کے بعد تمام سہولیات کے مطابق یہ رقم 19 لاکھ تک ملے گی جو سرکاری ملازمین کے لیے سب سے زیادہ نقصان ہے۔
ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے 65 کرنے کی تجاویز طلب کرلی ہیں۔ حکومت نے اس حواولے سے صوبائی محکمہ قانون سے تجاویز طلب کر لی ہیں اور تمام محکموں سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواستیں دینے والوں کی فہرستیں طلب کر لی ہیں۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کی حکومت نے عمر کی حد 60 سے بڑھا کر 63 سال کر دی تھی۔ تاہم اس کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا۔ اب ایک بار پھر پنشن اصلاحات کے نام پر نوجوانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ 65 سال عمر کی حد مقرر کرنے کی آئی ایم ایف کا مطالبہ بہت پرانا ہے۔ تاہم اس کی پاکستان کی 65 فیصد آبادی جن کی عمر 18 سے 30 کے درمیان ہے، اس پر برا اثر پڑے گا۔
خیبر پختون حکومت نے ایک طرف سرکاری ملازمتوں پر اب تک پابندی نہیں اٹھائی تو دوسری جانب پنجاب اور سندھ نے ملازمتوں سے پابندی اٹھائی ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض وزرا اور اراکین نے ذرائع کو بتایا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم آئندہ بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دے سکیں۔ مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن صوبائی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں 5 لاکھ سے زائد گاڑیاں ہیں جن پر ٹیکس لاگو نہیں اور صوبائی حکومت اس پر آئندہ بجٹ میں ٹیکس لگانا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے مالاکنڈ ڈویژن میں پھر حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ سرکاری ملازمتیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سے گھر چلا رہے ہیں۔
وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبے کی مالی حالت خراب ہے۔ اصلاحات ضروری ہیں۔ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت نے ملازمت کے لیے اوور ایج کی حد بھی 35 سے 40 کرنے پر غور کررہی ہے۔ تاہم دیکھنا ہے کہ وفاقی حکومت کی اصلاحاتی کمیٹی کیا تجاویز سامنے لاتی ہے۔ کیونکہ یہ کمیٹی گزشتہ 12 سال سے کام کررہی ہے لیکن دیگر تجاویز پر حکومت تیار نہیں ہے صرف پنشن اور ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد مقرر کرنے پر تیار ہے، جس پر سرکاری ملازمین کی جانب سے ردعمل آسکتا ہے۔ کیونکہ عمر کی حد زیادہ کرنے کی آڑ میں پنشن پر کٹ لگائے جانے کا امکان ہے۔