ٹرانس فیٹی ایسڈ قلبی صحت کیلئے خطرہ ہیں،ایگزیکٹو ڈائریکٹرسی پی ڈی آئی

 

ٹرانسفارم پاکستان مہم میں شامل اداروں پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹ (پی وائی سی اے)، سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹو ہارٹ فائل، یونیسیف، وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن، گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر اور دیگر اداروں نے پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی پر زور دیا ہے کہ پاکستان بھر میں تمام کھانے پینے کی اشیاء میں صنعتی طور پر پیدا ہونے والے ٹرانس فیٹی ایسڈز کی مقدار 2 فیصد سے کم کرنے کے حوالے سے اقدامات کو مزید موثر بنایا جائے۔

فی الحال، ٹرانس فیٹ ریگولیشن کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مقرر کردہ معیار پر پورا اترنے کے حوالے سے پاکستان کو جزوی طور پر ٹرانس فیٹ ریگولیشن پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے کم پابندی والے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ جب کہ2023 میں بناسپتی گھی، بیکری شارٹننگ، بسکٹ، رسک اور بریڈز اور بیکری کے سامان کو ضابطہ کار میں شامل کرنے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے، لیکن پاکستان اب بھی ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ بہترین پریکٹس پالیسی پر پورا نہیں اترتا۔

بہترین پریکٹس پالیسی کے لیے ان معیارات کو مکمل طور پر پورا کرنے کے لیے، یہ ضروری ہے کہ کھانوں میں ٹرانس فیٹ کی مقدار ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی مقرر کردہ حد (جو کہ 2 فیصد ہے ) سے کم ہو۔

پی وائی سی اے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اریبہ شاہد نے اس جامع نقطہ نظر کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، "ہماری قوم کی صحت خطرے میں ہے، اور یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدام کریں۔ تمام کھانوں میں ٹرانس فیٹی ایسڈ زکو ریگولیٹ کرتے ہوئے، ہم غیر متعدی بیماریوں کے بوجھ کو نمایاں طور پر کم کر سکتے ہیں اور صحت عامہ کے نتائج کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

سی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد نے حکومتی اقدامات کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، "ٹرانس فیٹی ایسڈز کو ریگولیٹ کرنا صحت عامہ کا ایک لازمی جزو ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی صحت کو یقینی بنا ئے اور اسے ترجیح دے کہ تمام غذائیں حفاظتی معیارات پر پورا اترتی ہیں یا نہیں ۔ہارٹ فائل کی سی ای او ڈاکٹر صبا امجد نے اس معاملے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، "ٹرانس فیٹی ایسڈ قلبی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور کئی غیر متعدی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جامع قواعد و ضوابط کو لاگو کرکے، ہم آنے والی نسلوں کی صحت کا تحفظ کر سکتے ہیں اور ایک صحت مند پاکستان بنا سکتے ہیں۔

مہم نے موجودہ پیش رفت کو سراہتے ہوئے، پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام کھانے پینے کی اشیاء کو بغیر کسی تاخیر کے ایک ہی ضابطے کے تحت لایا جائے۔ ہر گزرتے دن کا مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ پاکستانی عوام آئی ۔ ٹی ۔ ایف ۔ اے کے خطرات سے محفوظ ہیں، بہترین عمل کی پالیسی کو اپنانے میں ممکنہ تاخیر کو روکنا ضروری ہے۔

ٹرانسفارم پاکستان مہم کے تحت حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ تمام کھانوں میں آئی ٹی ایف اے کی حد کل چکنائی کے 2 فیصد سے زیادہ نہ ہونے کی ڈبلیو ایچ او کی بہترین طرز عمل کی پالیسی کی تعمیل کو یقینی بنائے۔ ایسا کرنے سے، پاکستان صحت عامہ کو بہتر بنانے اور اپنے تمام شہریوں کے لیے ایک صحت مند مستقبل بنانے کی جانب ایک اہم قدم اٹھا سکتا ہے۔