متعدد علاقوں کی سپلائی بند- واپڈا اہلکاروں نے بجلی بحالی سے انکار کر دیا، فائل فوٹو
 متعدد علاقوں کی سپلائی بند- واپڈا اہلکاروں نے بجلی بحالی سے انکار کر دیا، فائل فوٹو

کے پی حکومت کی دھمکی خود کے گلے پڑگئی

محمد قاسم:
ایک طرف خیبرپختون کے صوبائی دارالحکومت پشاور، مردان، کوہاٹ، نوشہرہ اور دیگر شہروں میں پارہ 45 سینٹی گریڈ سے تجاوز کر رہا ہے تو دوسری جانب عوام کا پارہ بھی بڑھ رہا ہے۔ غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر عوام مشتعل ہوگئے ہیں اور انہوں نے پشاور اور لنڈی کوتل کے گرڈ اسٹیشنز پر دھاوا بول کر کنٹرول سنبھال لیا۔

ذرائع کے مطابق موجودہ صورتحال صوبائی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی بدانتظامی کے سبب پیدا ہوئی۔ جنہوں نے وفاق کو عوامی طاقت سے بجلی بحال کرنے کی دھمکیاں دیں۔ جس سے اب الٹا امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے اور صوبائی سیکورٹی اداروں نے حکومت کو اس حوالے سے پُرامن پالیسی بنانے کی درخواست کی ہے۔ گزشتہ روز مشتعل مظاہرین نے پشاور شہر کے دلہ زاک گرڈ اسٹیشن پر دھاوا بولا اور گرڈ اسٹیشن کا کنٹرول سنبھال لیا۔

جبکہ ملازمین وہاں سے فرار ہو گئے۔ جس کے بعد پشاور سٹی، دلہ زاک روڈ، جی ٹی روڈ، چمکنی اور موٹروے کے قریب تمام علاقوں کی بجلی منقطع ہو گئی اور ملازمین نے بجلی بحال کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم چونکہ مظاہرین کو بھی گرڈ اسٹیشن چلانے کا تجربہ نہیں۔

بعض مظاہرین نے بتایا کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ایم پی اے فضل الٰہی نے رحمان بابا گرڈ اسٹیشن ہزار خوانی کا قبضہ کر کے بجلی بحال کی تو ہم نے بھی یہی سوچا تھا کہ اس طرح بجلی بحال ہوجائے گی۔ تاہم ملازمین کے جانے کے بعد کام الٹا ہو گیا۔ دوسری جانب پیسکو (Pesco) کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بعض علاقوں میں واپڈا ملازمین نے سیکورٹی خدشات پر ٹرانسفارمرز کی مرمت کیلئے جانے سے انکار کر دیا ہے۔

ان کا موقف ہے کہ وفاقی محکمہ کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کے ورکرز اور بعض لوگوں کا ان کے ساتھ رویہ جارحانہ ہوتا ہے۔ جبکہ ان کا تعلق اسی صوبے سے ہے۔ حکومتی اراکین اور اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے وفاقی حکومت کو دھمکیوں کی وجہ سے عوام میں اشتعال پھیلا۔ ادھر ضلع خیبر میں لوڈ شیڈنگ کے ستائے شہریوں نے لنڈی کوتل گرڈ اسٹیشن پر دھاوا بول دیا۔ مشتعل مظاہرین گرڈ اسٹیشن کے اندر گھس گئے اور وہیں دھرنا دے دیا۔ مظاہرین نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ پشاور اور صوبے کے میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت جمعرات کو بھی برقرار رہی اور کاروبار معطل ہو کر رہ گیا۔ شہری گھروں اور پناہ گاہوں تک محدود ہیں۔ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے پانی کا مسئلہ بھی پیدا ہورہا ہے۔ جبکہ بازاروں میں 12 بجے دوپہر کے بعد برف ملنا ناممکن ہے۔ گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلہ کم وولٹیج کا بھی ہے۔ جس نے شدت اختیار کر لی ہے۔ جس کی وجہ سے کئی شہریوں کے فریج، ایئرکنڈیشنر اور ایئر کولرز جل گئے ہیں۔ جبکہ تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کاروبار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ میں کمی کی جائے۔

ذرائع کے مطابق ایک طرف وفاقی حکومت کو دھمکیوں اور اسمبلی اراکین اور عوام کی جانب سے گرڈ اسٹیشنز پر قبضوں اور زبردستی بجلی بحالی سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور لوگ چوری میں بھی مزید ملوث ہورہے ہیں۔ حکومت نے چوری کے خاتمے کے لئے جو اقدامات اٹھائے۔ وہ ناکام ہو رہے ہیں۔ جبکہ سولر کمپنی والوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ سرد علاقوں میں گھروں کے کرائے ڈبل ہو گئے ہیں اور لوگ گلیات، سوات، شانگلہ، دیر اپر اور چترال سمیت بالائی علاقوں میں کرائے کے گھر ڈھونڈ رہے ہیں۔ تاہم زیادہ کرائے ہونے کی وجہ سے یہ گھر عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔