عبدالحفیظ عابد:
حیدرآباد کے گنجان آباد علاقے پریٹ آباد میں زچہ خانہ کے قریب جمعرات کی شام ایل پی جی فلنگ کی دکان میں گیس سلنڈرز کے دھماکوں سے ہولناک آتشزدگی کے باعث دم توڑنے والوں کی تعداد پیر کے روز تک 14 ہوچکی تھی۔ جن میں 9 بچے بھی شامل ہیں۔ اس کی تصدیق ایم ایس سول اسپتال کراچی ڈاکٹر خالد بخاری نے کی۔ جبکہ سول اسپتال کراچی منتقل کیے گئے متعدد زخمیوں میں سے سات کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔ ان کے جسم 90 فیصد تک جھلس گئے تھے۔ یوں جانی نقصان بڑھنے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ واقعے میں زخمی دکان دار اکرم آرائیں بھی دم توڑ چکا ہے۔ دوسری جانب حیدرآباد کی رہائشی آبادیوں میں گیس فلنگ کی دکانیں بند کرا دی گئی ہیں۔ لیکن اطراف کے علاقوں میں ایل پی جی گیس بلیک میں فروخت ہو رہی ہے۔ گیس سلنڈرز کی عدم دستیابی سے گھروں میں چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں اور سینکڑوں ہوٹل، ریسٹورینٹ کا بزنس متاثر ہے۔ اسی طرح سینکڑوں رکشا والوں کا روزگار بھی ٹھنڈا پڑ رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حیدرآباد کے ہر تھانے کی حدود میں قائم سلنڈر فلنگ کی غیر قانونی دکانوں سے پولیس ماہانہ بنیاد پر بھتہ وصولی کرتی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلدیاتی و ضلعی انتظامیہ، ریسکیو حکام اور محکمہ صحت کی نااہلی سے جانی و مالی نقصان میں اضافہ ہوا۔ اسی لئے شہریوں کی طرف سے سانحے کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کرانے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ادھر حیدرآباد کی بڑے اسٹیک ہولڈر ہونے کی دعویدار پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اس سانحے کے حوالے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر رہی ہیں۔ حتیٰ کہ نماز جنازہ کے موقع پر بھی نعرے بازی کرکے فضا مکدر کی گئی اور اشتعال پھیلایا گیا۔ متحدہ پاکستان کے حیدر عباس رضوی، علی خورشیدی، سید وسیم حسین اور دیگر ذمہ دار تعزیت کیلئے حیدرآباد پہنچے تو پیپلزپارٹی کو لتاڑتے ہوئے کہا کہ وہ عشروں سے مسلط ہے۔ اس نے بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جبکہ میئر کاشف شورو سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ پی پی ترجمان نے اس کا جواب دیا کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ لاشوں کی سیاست کی ہے۔
سانحہ پریٹ آباد کی ایف آئی آر پانچ روز بعد پنیاری تھانے میں سرکار کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔ اس میں ایل پی جی گیس سلنڈر کی دکان چلانے والے اکرم آرائیں ولد منشی آرائیں، دکان کے مالک باب الدین آرائیں اور اس کے بیٹے علی کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ ایس ایچ او لیاقت کمبار نے ایف ائی آر میں لکھا ہے کہ ’’دھماکے کا متاثرہ کوئی شخص مقدمہ درج کرانے نہیں آیا۔ اس لئے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔ اکرام ارائیں پر الزام ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر سلنڈر فلنگ کی دوکان چلا رہا تھا۔ جب کہ باب الدین اور اس کے بیٹے پر خطرناک کاروبار کے لئے غیر قانونی طور پر دکان دینے کا الزام ہے‘‘۔
واضح رہے دکان چلانے والا اکرم آرائیں دھماکے میں خود بھی زخمی ہوا تھا جو اتوار کو انتقال کر گیا۔ عوامی حلقوں میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ گنجان آبادیوں میں ایل پی جی سلنڈر فلنگ جیسے خطرناک کاروبار کرنے کی اجازت کون دیتا ہے اور انسانی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو تحفظ کون فراہم کرتا ہے۔ جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے شور مچتا تو وقتی طور پر ایسے خطرناک کاروبار کی دکانیں سیل ہوتی ہیں۔ پکڑ دھکڑ ہوتی ہے اورچند ہفتے اور مہینے بعد پھر سارا مذموم کاروبار شروع ہو جاتا ہے۔ پورے سلسلے کو چلانے والوں کو بے نقاب کرنے اور قانون کی گرفت میں لانے کے لئے ہی اس سانحے کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔
سانحے کے دوسرے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کراچی منتقل کیے گئے زخمیوں کی عیادت کی تھی۔ ان کی جانیں بچانے اور علاج معالجے کے تمام وسائل استعمال کرنے کرنے کی ہدایت کی تھی۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے وزیر آبپاشی جام خان شورو، وزیر اعلیٰ سے ملے تھے اور سانحہ پریٹ اباد کے متاثرین کے لئے امداد کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد میئر حیدرآباد کاشف شورو جاں بحق ہونے والوں کے گھروں پر تعزیت کیلئے گئے۔ بعد میں سول اسپتال میں انہوں نے زخمیوں کی عیادت بھی کی۔
اس دوران انہوں نے متاثرہ خاندانوں کو بتایا کہ جاں بحق ہونے والوں کے خاندان کو سندھ حکومت نے فی کس 10 لاکھ اور زخمی کو 5 لاکھ روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب سانحے کے 10 زخمی سول اسپتال حیدرآباد میں ہیں۔ ہولناک دھماکے سے بھڑکنے والی آگ پھیلتی چلی گئی تھی۔ دھماکوں سے پورا علاقہ لرز اٹھا۔ کیونکہ وقفے وقفے سے مزید گیس سلنڈر بھی پھٹتے رہے۔ قریب کی دکانیں اور گھر بھی زد میں آگئے۔ اسی لئے متاثرین میں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔
دکان کے مالک گڑ کے کاروباری باب الدین کا خاندان بھی اوپر کی منزل پر رہتا تھا اور ایک مدرسہ بھی ساتھ قائم تھا۔ دھماکے کے بعد اس کے خاندان کے افراد کو بھی فوری نکالا گیا۔ لیکن مدرسے سے نکلنے والے بچے اور دکان کے سامنے کھیلنے والے بچے زد میں آگئے۔ فائر برگیڈ کی گاڑیاں فقیر کاپڑ، اور دیگر علاقوں سے ایک گھنٹے کی تاخیر سے پہنچیں۔ ایمبولینسز کی آمد میں تاخیر ہوئی۔ شاہراہوں، چوراہوں اور محلوں میں تجاوزات کی بھرمار بھی ہنگامی صورتحال میں امدادی سرگرمیوں میں کافی تاخیر کا سبب بنی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنا میئر منتخب کرانے کیلئے حیدرآباد کے 9 ٹائونز کی جس طرح سیاسی تقسیم کی، زگ زیگ حد بندیاں کیں، اس نے بھی بڑا نقصان پہنچایا۔
ڈپٹی کمشنر نے ٹائون بننے کے بعد اس علاقے کا نشترآباد فائر برگیڈ اسٹیشن عملا بند کر دیا تھا اور عملہ دوسری جگہ بھیج دیا تھا۔ ویسے بھی اتنے بڑے شہر میں فائر فائٹنگ کیلئے صرف پانچ گاڑیاں ہیں۔ ان میں سے بھی ایک تو خراب رہتی ہے۔ لیکن بلدیہ حکام کا دعوی ہے کہ 6 گاڑیوں نے پریٹ آباد میں آگ بجھانے میں حصہ لیا اور پہلی گاڑی 25 منٹ میں پہنچ گئی تھی۔ ڈپٹی میئر محمد صغیر قریشی نے نشترآباد فائر برگیڈ اسٹیشن کا دورہ کرکے 14 نومبر 23 کو اسٹیشن کی حالت زار سے میئر کو تحریری آگاہ کیا تھا اور سوال اٹھایا تھا کہ اگر کبھی اگ لگنے کا حادثہ ہوگیا تو نہ جانے کیا ہوگا۔ مگر اس پر توجہ نہ دی گئی اور اندوہناک واقعہ ہوگیا۔ اب یہ خط چارج شیٹ کی حثیت رکھتا ہے۔
ایل پی جی فلنگ کی دکان میں یا کسی رکشا، گاڑی میں لگے غیر معیاری سلنڈر کے پھٹنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مگر چھوٹے حادثات توجہ نہیں دی گئی اور پھر بڑا سانحہ ہو گیا۔ دھماکوں کے شدید زخمیوں کو اٹھانے کے لئے فوری ایمبولینسز مہیا نہ ہو سکیں تو علاقے کے لوگوں اور سماجی کارکنوں نے رکشائوں، گاڑیوں میں انہیں سول اسپتال پہنچایا جہاں کم زخمیوں کی مرہم پٹی کر دی گئی۔ 20 فیصد تک جلے ہوئے افراد کو برنس وارڈ میں رکھا گیا اور جو بہت زیادہ جھلس گئے تھے ان کو طبی امداد کے بعد کراچی منتقل کر دیا گیا۔
کیوں کہ حیدرآباد سول اسپتال میں برنس وارڈ بھی جدید سہولتوں سے محروم ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر حیدرآباد میں گیس فلنگ کی 53 سے زائد غیر قانونی دکانیں بند کرا دی گئی ہیں۔ کچھ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے زخمیوں کی عیادت کے دوران میڈیا کے سامنے یہ سوال اٹھایا کہ یہ غیر قانونی فلنگ اسٹیشن کیسے بن جاتے ہیں، کون اجازت دیتا ہے؟ حالانکہ یہ سوال تو وزیراعلی سے کیا جانا چاہیے۔ وہ تیسرے بار صوبے کے چیف ایگزیکیٹیو بنے ہیں۔ مگر وہ اس بات سے بے خبر ہیں۔ گیس فلنگ کی دکانیں ہی نہیں، آبادیوں میں غیر قانونی پٹرول پمپ بھی بنے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد میں لطیف آباد نمبر 6 اور لطیف آباد نمبر 9 کی مشترکہ دو رویہ مصروف شاہراہ پر ایک بنگلے کی جگہ سال بھر سے پٹرول پمپ قائم ہے۔ جس کے مالک نے 13 اداروں سے این او سی لینے کا امتحان کامیابی سے طے کیا۔
یاد رہے کہ حیدرآباد میں سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ بہت زیادہ ہے۔ پریٹ آباد جیسے گنجان آباد علاقے زیادہ متاثر ہیں۔ اس لئے گیس سلنڈرز کی طلب بہت بڑھ گئی ہے۔ اب کریک ڈائون کے بعد سٹی، لطیف آباد اور قاسم آباد کے شہری علاقوں میں گیس فلنگ کی دکانیں بند کرا دی گئی ہیں۔ اس لیے یہاں گیس بہت کمیاب ہے، لیکن شہر سے باہر گیس بلیک میں فروخت ہو رہی ہے۔ ڈپٹی کمشنر زین العابدین نے آبادیوں میں گیس سلنڈر کی دکانوں پر پابندی لگا دی ہے اور اجازت نامے جاری کرنے اور احتیاطی تدابیر کیلئے محکمہ داخلہ سندھ، سول ڈیفنس، پٹرولیم اور دیگر محکموں کو خط لکھ دیا ہے اور ایل پی جی کی غیر قانونی فروخت روکنے کے دفعہ 144 کے نفاذ کی سفارش کر دی ہے۔