امت مسلمہ کے ارباب اختیار کو جھنجھوڑنے کیلیے ڈاکٹر عافیہ نے قرآنی آیت پڑھی، فائل فوٹو
 امت مسلمہ کے ارباب اختیار کو جھنجھوڑنے کیلیے ڈاکٹر عافیہ نے قرآنی آیت پڑھی، فائل فوٹو

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے رواں برس اہم قرار

امت رپورٹ :
امریکی عقوبت خانے میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے رواں سال بہت اہم ہے۔ طویل ظالمانہ قید اور جسمانی و ذہنی تشدد نے ڈاکٹر عافیہ کی یادداشت کو بھی متاثر کیا ہے۔ جبکہ ان کی صحت پہلے سے زیادہ گرچکی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ سے جنسی زیادتی کا سلسلہ جاری رہنے سے متعلق امریکی وکیل کلائیو اسمتھ کے تازہ ہولناک انکشاف نے انسانی حقوق کے بارے میں امریکی کردار کے آگے ایک بار پھر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ بربریت کی یہ نئی روداد ڈاکٹر عافیہ سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور وکیل کی ملاقاتوں کے بعد سامنے آئی ہے۔ ایک ملاقات کے اختتام پر ڈاکٹر عافیہ نے امت مسلمہ کے ارباب اختیار کو جھنجھوڑنے کے لئے نہایت رقت آمیز لہجے میں ایک قرآنی آیت بھی پڑھی۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر فوزیہ اس وقت امریکہ میں ہیں۔ چند روز بعد ان کی وطن واپسی متوقع ہے۔ ڈاکٹر عافیہ نے پچھلے دنوں دو بار ڈاکٹر عافیہ سے امریکی ریاست ٹیکساس کی ایف ایم سی کارسویل جیل میں دو بار ملاقات کی۔ جبکہ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ نے بھی دو میٹنگز کیں۔

ان ملاقاتوں کا احوال بیان کرنے سے پہلے یہ ذکر کرتے چلیں کہ رواں برس ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے کیوں بہت اہم ہے؟ اس بارے میں وکیل کلائیو اسمتھ کا کہنا ہے، اس برس نومبر میں امریکہ میں صدارتی الیکشن ہونے جارہا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے ایک سے زائد آپشنز استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک صدارتی معافی کا ہے۔ ہر امریکی صدر سبکدوش ہونے سے پہلے قیدیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا آپشن حکومت پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے معاہدے سے متعلق ہے۔ اگر حکومتی سطح پر چند ماہ بعد سبکدوش ہونے والے امریکی صدر سے اس نوعیت کی درخواست کی جائے تو ایسی درخواست تسلیم کیے جانے کے واضح امکانات ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں وکیل کلائیو اسمتھ اعلیٰ امریکی حکام سے بھی اہم ملاقاتیں کر رہے ہیں اور حکومت پاکستان سے بھی رابطہ کریں گے۔

ادھر گلوبل کوآرڈینیٹر عافیہ موومنٹ محمد ایوب نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ڈاکٹر فوزیہ اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مابین ہونے والی دونوں ملاقاتیں چار چار گھنٹوں پر مشتمل تھیں۔ تاہم پہلی ملاقات میں ڈاکٹر فوزیہ کو دو گھنٹے انتظار کرایا گیا۔ یوں یہ ملاقات محض دو گھنٹے کی رہ گئی۔ حسب سابق اس بار بھی ملاقاتوں کے موقع پر دونوں بہنوں کے درمیان موٹے شیشے کی دیوار حائل تھی۔ جبکہ گفتگو کے لئے دونوں طرف لینڈ لائن فون کو بطور انٹرکام رکھا گیا تھا۔ ملاقاتوں میں والدہ عصمت صدیقی مرحومہ کا کافی ذکر ہوا۔ دوسری ملاقات میں ایک نیا کام یہ کیا گیا کہ جب ایک جذباتی موقع پر دونوں بہنیں زاروقطار رو رہی تھیں تو جیل حکام ڈاکٹر عافیہ کو واپس بیرک میں لے گئے اور ڈاکٹر فوزیہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک کمرے میں اکیلی بیٹھی رہیں۔ یوں ایک طرح سے انہیں محصور کردیا گیا۔ بارہا جیل حکام کی توجہ دلانے پر ڈاکٹر فوزیہ کو کمرے سے باہر نکالا گیا۔

تاہم گزشتہ برس ہونے والی ملاقاتوں کے مقابلے میں اس بار شیشے کی دیوار قدرے صاف تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کی صحت پہلے سے زیادہ گرچکی ہے۔ خاص طور پر ڈاکٹر عافیہ کے چہرے کا دایاں حصہ کافی متاثر ہوا ہے۔ جیل میں ہونے والے ایک حملے کے نتیجے میں ان کے سامنے کے چار دانت پہلے ہی ٹوٹ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس جون میں بھی ڈاکٹر فوزیہ نے امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ سے دو ملاقاتیں کی تھیں۔ یہ پچھلے بیس برس کے دوران ڈاکٹر عافیہ کی اپنی بہن سے پہلی ملاقات تھی۔ گزشتہ کئی برسوں سے ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان واپسی سے متعلق تحریک چلائی جارہی ہے۔ جس کی سربراہی ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔ ایک برس کے دوران ہونے والی ان چار ملاقاتوں میں جہاں درمیان میں شیشے کی دیوار حائل رہی۔ وہیں ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تازہ تصاویر دکھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہر ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ ان کو اپنی والدہ اور بچے بہت یاد آتے ہیں۔

گفتگو کے دوران اکثر ڈاکٹر عافیہ ماضی میں چلی جاتی ہیں اور انہیں مشکل سے واپس لانا پڑتا ہے۔ اس سے ڈاکٹر عافیہ کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر عافیہ کے سامنے بچوں کا ذکر کیا جائے تو وہ ماضی میں چلی جاتی ہیں، جب ان سے بچے چھینے گئے تھے۔ گزشتہ برس ڈاکٹر فوزیہ سے ملاقات کے موقع پر بچوں کا ذکر آیا تو اپنے بڑے بیٹے احمد کے لئے ڈاکٹر عافیہ کا کہنا تھا کہ واپس جاکر اسے نیلے رنگ کی بیٹری سیل والی کار کا کھلونا ضرور لے کر دینا۔ اسے ایسی کھلونا کار بہت پسند تھی۔ جب انہیں یاد دلایا گیا کہ احمد اب جوان ہوچکا ہے اور ڈاکٹر ہے تو وہ یکلخت ماضی سے حال میں آئیں اور زیر لب کہا ’’اتنے برس گزر گئے؟‘‘۔ جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ جیل حکام نے تاحال ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تازہ تصاویر دکھانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ لہٰذا انہیں نہیں معلوم کہ ان کے بچوں کی شکل و صورت اب کیسی ہے۔

طویل ظالمانہ قید نے ڈاکٹر عافیہ کی یادداشت بھی متاثر کی ہے۔ جبکہ ان پر جسمانی و ذہنی دونوں قسم کا بے انتہا تشدد ہوا ہے۔ اپنی رہائی کے حوالے سے ارباب اختیار کے رویے نے ڈاکٹر عافیہ کو خاصا مایوس کر رکھا ہے۔ محمد ایوب کے بقول امریکہ سے بذریعہ فون بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ نے انہیں بتایا کہ جب دوسری ملاقات کا وقت ختم ہوا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جیل حکام واپس بیرک میں لے جارہے تھے تو جاتے جاتے انہوں نے سورہ النساء کی یہ آیت پڑھی، جس کا ترجمہ ہے ’’(مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے، جبکہ کئی کمزور مرد، عورتیں اور بچے ایسے ہیں جو یہ فریاد کرتے ہیں کہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لئے کوئی حامی اور مددگار پیدا فرمادے‘‘۔

ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر فوزیہ کے مابین ہونے والی تازہ دونوں ملاقاتوں کا بیشتر حصہ رونے میں گزرا۔ اس سے پہلے ڈاکٹر فوزیہ سے دو ملاقاتیں ان کے وکیل کلائیو اسمتھ نے کیں۔ پہلی ملاقات کے موقع پر ٹیلی فون خراب تھا۔ چنانچہ دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھنے سے قاصر تھے۔ جیل میں ہونے والے تشدد کے سبب ویسے بھی ڈاکٹر عافیہ کی سماعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بعد ازاں جیل حکام سے کلائیو اسمتھ کی جانب سے شکایت کرنے پر ٹیلی فون سیٹ تبدیل کر دیئے گئے۔ اپنی بہن سے ملاقات کے دوران ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ قوم کی دعائوں کی بدولت وہ اب تک زندہ ہیں۔ لیکن ان کی آنکھ روزانہ عقوبت خانے میں کھلتی ہے۔ کچھ ایسا کریں کہ وہ بھی اپنے وطن واپس آجائیں۔

ادھر امریکی وکیل کلائیو اسمتھ نے یہ ہولناک انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ جنسی زیادتی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ جیل میں ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے بعد ایک چینل کے نمائندے سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کلائیو اسمتھ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کو جیل میں ایک بار پھر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دو ہفتے پہلے ایک گارڈ نے ڈاکٹر عافیہ سے سزا کے طور پر زیادتی کی۔ انہیں مسلسل جنسی ہراسانی کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں ہے۔ کلائیو اسمتھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کے کیس کے حوالے سے وہ کافی پُرامید ہیں۔ اس سلسلے میں پیش رفت ہورہی ہے۔ واشنگٹن میں انہوں نے کچھ لوگوں سے ملاقات کی ہے۔ جو وائٹ ہائوس کو ڈاکٹر عافیہ کی حالت زار کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ جبکہ وہ پاکستانی حکام سے بھی اس سلسلے میں دوبارہ رابطہ کریں گے۔