محمد قاسم :
خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے تعلیم عام اور مفت کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جبکہ پشاور میں کتابوں، کاپیوں اور اسٹیشنری کے تاجروں نے لوٹ مچا دی ہے جو پرانے اسٹاک پر نئے ٹیکس لگا کر ناجائز منافع بٹور رہے ہیں۔ ہشت نگری ،قصہ خوانی،چوک یادگار،پشاور صدر اور بورڈ سمیت دیگر علاقوں میں اسٹیشنری کے کاروبار سے وابستہ تاجروں نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ شروع کر دیا اور کتابوں،کاپیوں،قلم اور دیگراشیاء پر 14 فیصد سیلز ٹیکس کی وصولی شروع کر دی۔
جبکہ بعض دکانوں پر مقررہ قیمتوں سے بھی زائد پر فروخت جاری ہے جس کی وجہ سے غریب کے بچوں کیلئے تعلیم کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے اور عوام میں اشتعال پھیل رہا ہے۔ اسکول کھلنے پر مزید مہنگائی کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ پی ٹی آئی حکومت مہنگائی کا نوٹس نہیں لے رہی۔ ذرائع کے مطابق اسٹیشنری پر 14فیصد سیلز ٹیکس عائد ہونے کے بعد پشاور کے بیشتر بازاروں کے تاجروں نے پرانے سٹاک بھی نئے سیلز ٹیکس کے تحت فروخت کرنا شروع کر دیئے ہیں اور چوک یادگار،پیپل منڈی،ہشت نگری،چوک یادگار،قصہ خوانی سمیت پشاور صدر اور دیگر بڑے مقامات پر کاروبار کرنے والے تاجر وں نے پرانے اسٹاک کو بھی نئے سیلز ٹیکس کے تحت فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔
کتابوں ،کاپیوں،قلم اور دیگر سٹیشنری کی اشیاء پر 14فیصد سیلز ٹیکس عائد کیاگیا ہے جس سے اسٹیشنری مزید 25 فیصد مہنگی ہو جائے گی۔ جبکہ دوسری جانب اسٹیشنری آئٹم سیلز ٹیکس کے خلاف تاجروں نے ہڑتال کے بارے میں غور شروع کر دیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ اس کا بوجھ غریب عوام پر پڑے گا اور ان کا کاروبار بھی تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ حکومت ایک طرف تعلیم عام اور مفت کرنے کے دعوے کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب سٹیشنری اشیا پر سیلز ٹیکس لگا کر تعلیم غریب کے بچوں کی دسترس سے باہر کررہی ہے۔ اس وقت 100 روپے میں ملنے والی کاپی اب 150روپے میں فروخت کی جارہی ہے جبکہ 100سے120روپے کے قلم کی قیمت 200 روپے تک جا پہنچی ہے۔
اسی طرح اسکول یونیفارم اور بیگزوغیرہ بھی مہنگے کر دیئے گئے ہیں۔ قصہ خوانی بازار میں مختلف نجی تعلیمی اداروں میں پہنے والے والے یونیفارمز کی قیمتوں میں بھی 100 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے جس سے براہ راست غریب متاثر ہوںگے اور ان کے بچوں کے لئے تعلیم کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ 14فیصد سیلز ٹیکس عائد ہونے سے جہاں اسٹیشنری کاروباری کرنے والے تاجروں کو بھاری منافع ہوا ہے اور وہ پرانا سٹاک نئے ٹیکس کے تحت وصول کر رہے ہیں، وہیں چھوٹے تاجر اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔
پشاور میں اسٹیشنری کے کاروبار سے وابستہ ایک مڈل کلاس تاجر رحمت اللہ نے، جو قصہ خوانی بازار میں سامان خریدنے کے لئے آیا تھا ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’بڑے تاجروں کو تو اس کا فائدہ ہو گیا ہے کیونکہ ان کے پاس لاکھوں کروڑوں روپے کا اسٹاک موجود ہوتا ہے۔ لیکن ہم ہر مہینے یا دو تین مہینے بعد سامان خریدنے کیلئے آتے ہیں لہذا ہمارے اوپر اس کا بہت زیادہ فرق پڑا ہے۔ ہم دن میں مشکل سے دو تین ہزار روپے کما لیتے تھے۔ لیکن اب مہنگائی کی وجہ سے یہ بھی مشکل ہو جائے گا‘‘۔ ایک بڑے تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’اگر سیلز ٹیکس نہ لگتا اور قیمتوں میں حکومت کمی کر دیتی تو پھر فائدہ یا نقصان کس کا ہوتا۔ اسی قسم کا معاملہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کے وقت بھی ہوتا ہے اور یہ کاروبار ہے جس میں نفع نقصان ہوتا رہتا ہے۔ تاہم ہمیں اتنا منافع بھی نہیں ہوا جس کا ڈھنڈورا پیٹاجارہا ہے۔ جبکہ سیلز ٹیکس لگ جانے کے باعث کاروبار کو شدید دھچکا پہنچا ہے اورآگے چل کر اس کے بہت زیادہ منفی اثرات کاروبار پر پڑیں گے۔ کیونکہ بجلی مہنگی ہونے سمیت دیگر ٹیکسوں نے تاجروں کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور تاجر بھی اس مہنگائی میں شدید متاثر ہورہے ہیں‘‘۔
اطلاعات کے مطابق سیلز ٹیکس کے خلاف سٹیشنری کے کاروبار سے وابستہ تاجروں نے احتجاج کے بارے میں غور شروع کر دیا ہے اور اس حوالے سے جلد اجلاس منعقد کر کے لائحہ عمل طے کی جائے گا اور حکومت سے سیلز ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ جبکہ دوسری جانب خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسکولوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد اسٹیشنری کی اشیاء مزید مہنگی ہونے کا بھی امکان ہے۔ کیونکہ چھٹیوں کے بعد والدین بچوں کے لئے نئے یونیفارمز، اسکول بیگزاور دیگر اسٹیشنری کا سامان خریدتے ہیں۔