سید حسن شاہ :
بانی متحدہ کی ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے والے خطاب کو آٹھ برس گزر چکے۔ تاہم اس بغاوت کیس کے 62 ملزمان کو تاحال سزا نہیں سنائی جاسکی ہے۔ بیشتر سماعتوں پر عدم حاضری اور گواہوں کی عدم دستیابی، کیس میں تاخیر کی بڑی وجوہات ہیں۔ جب کہ فاروق ستار اور عامر خان کو شناخت کرنے والے تین اہم و چشم دید گواہان کے دوبارہ بیانات ڈیڑھ برس بعد بھی ریکارڈ نہیں کرائے جاسکے۔
ملزمان کے تاخیری حربوں کی وجہ سے اب تک ان مقدمات کا ٹرائل بھی مکمل نہیں کیا جاسکا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام ملزمان ضمانت حاصل کرچکے ہیں۔ پراسیکیوشن اور تفتیشی حکام اتنے عرصے میں تمام گواہان کے بیانات بھی ریکارڈ نہیں کراسکے ہیں۔ مقدمات میں نامزد فاروق ستار، عامر خان، قمر منصور اور اشرف نور سمیت دیگر ملزمان اب متحدہ پاکستان کا حصہ ہیں۔ متحدہ رہنماؤں سمیت دیگر کارکنان کے خلاف غدارِ وطن الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر میں سہولت کاری، غداری سمیت سنگین جرائم کے دو مقدمات کے ٹرائل مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔
مقدمات تاخیر کا شکار ہونے کی وجوہات میں اکثر سماعتوں پر چند متحدہ رہنماؤں و کارکنان کی عدم پیشی، ملزمان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرنا، وکلا صفائی کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی درخواستیں اور گواہوں کو پیش نہ کیا جانا شامل ہیں۔ مذکورہ دونوں مقدمات تھانہ آرٹلری میدان میں درج کئے گئے تھے جو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ مقدمات میں پراسیکیوشن کی جانب سے ملزمان کے خلاف 20 سے زائد گواہان شامل کئے گئے جن میں پولیس افسران، سیکورٹی گارڈ اور راہگیر سمیت دیگر شامل ہیں۔ تاہم اب تک محض 13سے زائد گواہان کے بیانات قلمبند کئے جاسکے ہیں۔
اہم گواہان اپنے بیانات کے دوران ملزمان کو شناخت بھی کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ 3 اہم اور چشم دید گواہان نے ٹرائل کے دوران اپنے بیانات ریکارڈ کرائے تھے اور متحدہ رہنما فاروق ستار اور عامر خان کو شناخت بھی کیا تھا۔ بعد میں ملزمان کے وکلا نے ان گواہان کے بیانات دوبارہ ریکارڈ کرنے کی درخواست جمع کرائی تھی، جو منظور کرلی گئی تھی۔ تاہم ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود چشم دید گواہان کے بیان ریکارڈ نہیں ہوسکے۔
یاد رہے کہ بانی متحدہ نے 22 اگست 2016ء کو کراچی میں کارکنوں سے خطاب کے دوران پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے اور شرکا کو میڈیا ہاؤسز پر حملے کے لیے اکسایا تھا۔ ریاست دشمن اشتعال انگیز تقریر کے بعد متحدہ کے مسلح دہشت گردوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کے دفتر پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران ایک شخص ہلاک اور کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔ یہی نہیں، کراچی میں ریاست مخالف تقریر کے بعد بانی متحدہ نے 22 اگست ہی کو امریکا میں مقیم اپنے کارکنوں سے خطاب میں بھی پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے۔
دوسری جانب بغاوت پر اکسانے کے خلاف جب حکومت نے ایکشن لیا تو ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے اگلے ہی روز یعنی 23 اگست کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بانی متحدہ کے خطاب سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں ہی رجسٹرڈ ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اب اسے آپریٹ بھی پاکستان سے ہی کیا جائے۔ اور یوں فاروق ستار سمیت ریاست مخالف خطاب کے دوران تالیاں بجانے دیگر رہنمائوں نے بانی متحدہ سے دامن چھڑانے میں ہی عافیت جانی۔ واضح رہے کہ ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے والے خطاب کے بعد ایم کیو ایم کا ہیڈکوراٹر نائن زیرو بھی سیل کردیا گیا تھا۔
متذکرہ مقدمات میں فاروق ستار ، عامر خان ، کنور نوید جمیل ، گلفراز خٹک ، شاہد پاشا ، اشرف نور ، قمر منصور ، عبدالقادر خانزادہ ، عبدالرحمان ، ندیم فاروق ، محمد آصف زبیر ، شمس الاسلم ، راؤ طارق ، الطاف ، نیاز انور ، منیر احمد ، شہر علی ، محمد ناصر ، عرفان احمد ، حسن رضا ، جاوید شوکت ، محمد عرفان ، محمد جہانگیر ، محمد محسن صدیقی ، صوی الدین ، رضا حسین ، محمد مہدی ، محمد طیب ، محمد شریف ، نیاز احمد ، مراد خان ، عدنان عشرت ، آصف خان ، فرید احمد ، محمد وسیم ، ذوالفقار حسین ، عامر امین ، غلام نبی ، شفیق الحسن ، محمد سبحان ، منصور احمد ، ارشد علی ، عدیم احمد ، محمد شمیم عرف راشد ، محمد ولید ، سید انتخاب حیدر ، صباالدین ، رومان ، عدنان حبیب ، آصف صدیقی ، فہیم دانش ، حسن عالم ، عرفان عالم ، محمد محسن انصاری ، محمد سلیم ، محمد فیصل ، قرۃ العین ، رابعہ اور سمیرا کو نامزد کیا گیا تھا۔ جب کہ ان مقدمات میں نامزد کنور نوید جمیل ، مراد علی اور ذوالفقار انتقال کرچکے ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق 22 اگست 2016ء کو پولیس موبائل میں افسر و اہلکار گشت پر تھے اور کراچی پریس کلب پہنچے جہاں پر 17 اگست 2016ء سے متحدہ قومی موومنٹ کا بھوک ہڑتال کیمپ لگا ہوا تھا اور جہاں فاروق ستار ،کنور نوید جمیل ،شاہد پاشا ، قمر منصور ،گل فراز خٹک ،عبدالقادر ،جاوید کاظم ،عارف خان ، اکرم راجپوت ، اویس برنی ،اشرف نور ، رفیق اکبر ، ذاکر قریشی ، اسلم آفریدی سمیت 1500سے 2000 نامعلوم مرد و خواتین تھے۔ اس دوران بانی متحدہ کی ٹیلی فونک تقریر جاری تھی، جس میں اس نے ملک مخالف اور ریاستی اداروں کے خلاف نعرے لگائے۔
اس کے علاوہ شرکا سے بھی ملک مخالف نعرے لگوائے اور اشتعال دلایا۔ جس کے بعد پولیس نے تھانے آکر 1500سے 2000 نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ متحدہ کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود مرد و خواتین نے اپنے قائد کی مملکت پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز تقریر سنی اور اس پر عمل کرتے ہوئے توڑ پھوڑ ،جلاؤ گھیراؤ، آتشیں اسلحہ سے فائرنگ ، ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے پولیس افسران و دیگر کو اسلحہ، سریوں ، پتھروں، ڈنڈوں سے زخمی کیا۔ ان شرپسندوں کی فائرنگ سے عارف نامی شخص کی ہلاکت اور دیگر افراد کا زخمی ہونا پایا گیا۔ تفتیش کے دوران مقدمہ الزام نمبر 117/16میں گرفتار ملزمان سید شاہد پاشا، قمر منصر ، کنور نوید جمیل، سید ارشد علی ، عبدالرحمان ، صوی الدین ، محمد سلیم ، راؤ طارق ، ندیم، عرفان، محمد آصف زبیر ، محمد ناصر ، فہیم دانش اور محمد سبحان سے انٹروگیشن کی گئی جنہوں نے دوران تفتیش اپنے قائد کی ملکی سلامتی کے خلاف اشتعال انگیز تقریر سننے اور اس کی تائید کرکے ہنگامہ آرائی کرنے کا اعتراف کیا۔
یکم ستمبر 2016ء کو جے آئی ٹی منعقد ہوئی جس میں ملزمان کو روبرو پیش کیا گیا۔ جے آئی ٹی کے روبرو کنور نوید جمیل قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے باعث پیش نہیں ہوئے۔ تفتیش کے دوران بانی متحدہ کی تقریر کی سی ڈیز میں ریکارڈنگ کی کٹنگ اور ایڈنگ کی تصدیق کے لئے بھیجی گئی۔ جس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سی ڈیز بغیر ایڈنگ اور کٹنگ کی ہے۔ پولیس نے بتایا کہ تفتیش کے دوران ملزمان کے خلاف سی سی ٹی وی کیمرہ کی ریکارڈنگ ، ملزمان کے CDR/RBS و اعتراف جرم ، برآمد شدہ لاٹھیاں ، ڈنڈوں اور سریے ، ماہرین کی رپورٹس ، موقع سے حاصل شدہ چلیدہ خول ، موقع سے حاصل شدہ تصاویر اور شہادتوں سے پایا گیا کہ 22 اگست 2016ء کو متحدہ قائد نے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان کے خلاف بغاوت کا منصوبہ تیار کرکے بھوک ہڑتال کیمپ میں موجود شرکا میں اشتعال دلوایا اور بانی متحدہ کی ہدایت پر شرکا نے توڑ پھوڑ ،جلاؤ گھیراؤ ، آتشیں اسلحہ سے فائرنگ ، ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے پولیس افسران و دیگر کو اسلحہ ، سریوں ، پتھروں ، ڈنڈوں سے زخمی کرنا اور ان کی فائرنگ سے عارف نامی شخص کی ہلاکت اور دیگر افراد کو زخمی کرنا ثابت ہوتا ہے۔