امت رپورٹ :
القادر ٹرسٹ کیس یا 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں وکلا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا حق دفاع خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عمران اور بشریٰ کے وکلا مسلسل تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس اہم کیس کے آخری گواہ پر جرح دس بار ملتوی کی جاچکی ہے۔
احتساب عدالت کے جج نے گزشتہ سماعت میں انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انتباہ کیا تھا کہ اگر عمران اور ان کی اہلیہ بشریٰ کے وکلا نے تاخیری حربوں کا سلسلہ جاری رکھا اور آئندہ سماعت کے موقع پر بھی کیس کے آخری گواہ پر جرح مکمل نہیں کی تو قانون اپنا راستہ لے گا۔ آج جمعرات کو اس کیس کی اہم سماعت ہونے جارہی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اگر اس بار بھی وکلا صفائی نے گواہ پر جرح سے پہلو تہی کی تو کیا معزز جج اپنے انتباہ کو عملی جامہ پہنائیں گے یا پی ٹی آئی وکلا کو مزید رعایت دے دی جائے گی۔
واضح رہے کہ اب تک 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کے 34 گواہان پر جرح مکمل کی جاچکی ہے۔ جبکہ 35 ویں گواہ پر جزوی جرح کی گئی ہے۔ یہ آخری گواہ نیب کے تفتیشی افسر میاں عمر ندیم ہیں۔ اس ریفرنس کی کوریج کرنے اور اس پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔ انتہائی ٹھوس گواہیوں اور ناقابل تردید دستاویزی شواہد کے سبب دونوں میاں بیوی کا اس کیس سے بچنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ آخری گواہ پر جرح مکمل ہونے کے بعد یہ کیس تیزی کے ساتھ اپنے منطقی انجام کی طرف جائے گا اور اگلے ماہ کیس کا فیصلہ متوقع ہے۔ یہ بات عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکلا بھی بھانپ چکے ہیں۔ چنانچہ کیس کو لٹکانے کے لیے آخری گواہ پر جرح مکمل نہیں کی جا رہی ہے۔ فارن فنڈنگ اور دوسرے کیسز میں بھی پی ٹی آئی نے مسلسل تاخیری حربوں کی حکمت عملی اختیار کی تھی۔ گزشتہ برس توشہ خانہ فوجداری کیس میں پی ٹی آئی وکلا کے ان کی ہتھکنڈوں سے تنگ آکر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کا حق دفاع ختم کردیا تھا۔ اب 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بھی یہی تلوار لٹک گئی ہے۔
بظاہر آج کی سماعت میں احتساب عدالت کے جج نے پی ٹی آئی وکلا کو آخری موقع دیا ہے۔ اب وکلائے صفائی کیا حکمت عملی اپناتے ہیں ؟ یہ دیکھنا ہوگا۔ لگ بھگ پچھلے دو ماہ سے ہر سماعت پر پی ٹی آئی وکلا کی عدم موجودگی کے سبب آخری گواہ پر جرح مکمل نہیں ہو پارہی ہے۔
21 اگست کی سماعت کے موقع پر جب عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ کے وکیل علی ظفر نے احتساب عدالت کو بتایا کہ مرکزی وکلا اسلام آباد ہائی کورٹ میں مصروف ہیں تو اس پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ وکلا صفائی آج آٹھویں مرتبہ تفتیشی افسر پر جرح نہیں کر رہے، وکلا صفائی تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔تین مرتبہ اگر گواہ پر جرح نہ ہو تو حق دفاع ختم ہو جاتا ہے، ہم نے تاحال حق دفاع ختم کرنے کی درخواست نہیں کی۔ بعد ازاں 23 اور 26 اگست کی سماعتوں میں بھی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے مرکزی وکلا کی عدم دستیابی کا بہانہ کیا گیا جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ ہر تاریخ پر میڈیا ٹاک ہوتی ہے، سیاسی قیادت ملاقات کرتی ہے، پراسیکیوشن سمیت 200 سے زائد ملازمین عدالتی سماعت کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں، صرف ریفرنس پر ٹرائل کی کارروائی آگے نہیں بڑھتی۔ بعد ازاں جج نے کیس کی سماعت 29 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ ’’اگر مرکزی وکلا صفائی حاضر نہیں ہوں گے تو ہمارے پاس قانونی طریقہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔‘‘
پی ٹی آئی وکلا سے قربت رکھنے والے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وکلائے صفائی کو اندازہ ہو چکا ہے کہ ٹھوس گواہیوں اور اہم شواہد کے سبب اس کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کا بچنا مشکل ہے۔ چنانچہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کیس کو لٹکایا جارہا ہے۔ عمران خان کے وکلا کی کوشش ہے کہ کسی طرح اس کیس کو اکتوبر کے آخر تک کھینچ لیں۔ کیونکہ تب تک موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہو چکے ہوں گے۔
پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ان کے لئے ٹھنڈی ہوائیں چلنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی کے ساتھ ہی یہ ہوائیں مزید ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ ایسے میں 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ اگر عمران اور بشریٰ کے خلاف بھی آتا ہے تو پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسے چیلنج کیا جائے گا، جہاں سے پی ٹی آئی کو ریلیف کی خاصی توقع ہے۔ اور اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو پی ٹی آئی کی دانست میں سپریم کورٹ سے ریلیف مل ہی جائے گا۔ تاہم نیب کے پراسیکیوٹر اسے پی ٹی آئی کی خوش فہمی سمجھتے ہیں۔ نیب کا خیال ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف اس قدر ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ سزا ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے ان کی سزا ختم ہونے کے امکانات کم ہیں۔
بہرحال گیم جاری ہے۔ کیس کو لٹکانے کے لیے پی ٹی آئی وکلا مسلسل تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت عمران خان کے وکلا نے احتساب عدالت کو کیس کے حتمی فیصلے سے روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور جزوی کامیابی بھی حاصل کر لی تھی۔ تاہم چند روز بعد ہی یہ حربہ ناکام ہوگیا۔ واضح رہے کہ 19 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس بند کرنے سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کے پرانے فیصلے کے ریکارڈ کی فراہمی اور ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو کیس کا حتمی فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔ تاہم دو روز بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا یہ حکم نامہ واپس لے لیا تھا۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف پی ٹی آئی القادر ٹرسٹ کیس کو اکتوبر تک لٹکانے کی کوشش کررہی ہے، وہیں وہ دانستہ تاخیری حربے استعمال کرکے خود یہ چاہتی ہے کہ احتساب عدالت کے جج تنگ آ کر عمران خان اور بشریٰ بی بی کا حق دفاع ختم کردیں۔ تاکہ فیصلے کو متنازعہ بنایا جاسکے، بالکل ایسے ہی جیسے توشہ خانہ فوجداری کیس کے فیصلے کو متنازعہ بنایا گیا تھا۔ تاہم نیب، پی ٹی آئی کو اس کا موقع نہیں دینا چاہتا۔ اس سے قبل عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف چند کیسوں کے فیصلے جلد بازی میں سنائے گئے اور اسے پی ٹی آئی نے پوری طرح ایکسپالائٹ کیا اور اس کا فایدہ اٹھاتے ہو اعلی عدالتوں سے ریلیف حاصل کیا تھا۔
ذرائع کے بقول چونکہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس ایک مضبوط کیس ہے، لہذا جلد بازی کرکے اسے کمزور نہ کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیب پراسیکیوٹر نے اب تک ٹرائل کورٹ سے حق دفاع ختم کرنے کی درخواست نہیں کی ہے۔ حالانکہ قانونی طور پر تین مرتبہ اگر گواہ پر جرح نہ ہو تو حق دفاع ختم ہو جاتا ہے۔ اس احتیاط کا مقصد پی ٹی آئی کو ایسا کوئی موقع فراہم کرنے سے بچنا ہے، جسے بنیاد بنا کر وہ کیس کے فیصلے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرے۔
یاد رہے کہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 190 ملین پاؤنڈز کو ملک ریاض پر سپریم کورٹ کی جانب سے عائد جرمانے میں ایڈجسٹ کرادیا تھا۔ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔ جس پر القادر یونیورسٹی قائم کی گئی۔
عمران خان نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو بھی گمراہ کیا۔ رقم قومی خزانے میں جمع کی جانی تھی لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔ اس کیس میں ملک ریاض اور دیگر ملزمان کو اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے۔کیس میں گواہی دینے والے 35 افراد میں عمران خان کے ماضی کے دیرینہ ساتھی اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے علاوہ سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور زبیدہ جلال بھی شامل ہیں۔