فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایف بی آر میں اصلاحات پروگرام مشکلات کا شکار

عمران خان:
ایف بی آر میں اصلاحات کے ذریعے ادارے کو زیادہ سے زیادہ محصولات جمع کرنے کے لئے فعال کرنے کی سفارشات وزیر اعظم کو ملتے ہی مشکلات کا شکار ہو گئیں۔ ادارے کے باہر سے لائے گئے چیئرمین ایف بی آر کو وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے دئے گئے ٹاسک پر عدمل در آمد میں مختلف چینلجز کا سامنا ہے۔ ان میں ایف بی آر آفیسرز کی جانب سے کی جانے والی شدید ترین تنقید کے ساتھ ہی مختلف فیلڈ فارمیشنز موثر انداز میں ساتھ لے کر چلنے میں ناکامی جیسے مسائل شامل ہیں ۔

ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے اہم ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ایف بی آر میں اصلاحات کے لئے حکومت گزشتہ کئی برسوں سے کوشاں ہے۔ حالیہ عرصہ میں آئی ایم ایف کی جانب سے بھی اس معاملے کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لئے زور دیا گیا ۔ جس کے لئے اس معاملے کو آئی ایم ایف کی جانب سے ان سفارشات میں شامل کرنا ہے جن کو پورا کرنا حکومت پاکستان کے لئے نئے بیل آئوٹ پیکج کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔

ذرائع کے بقول اس سلسلے میں حکومتی کوششیں پہلی پی ڈی ایم حکومت کے زمانے سے جاری ہیں جن کا تسلسل الیکشن سے قبل بننے والی عبوری حکومت کے دوران بھی جاری رہا۔ تاہم اب نئی حکومت بننے کے بعد اس میں تیزی آگئی ہے ۔ذرائع کے بقول اس سلسلے میں عبوری حکومت کے دوران عبوری وزیر خزانہ شمشاد اختر نے اس پر تیزی سے کام کیا اور انہوں نے اس ضمن میں ایف بی آر کے ان لینڈ ریونیو سروسز گروپ اور کسٹمز ونگ کے افسران سے سفارشات طلب کیں ۔ دونوں جانب سے سفارشات ملنے کے بعد شمشاد اختر کی جانب سے یہ تجویز دی گئی کہ ایف بی آر کے ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔

اس پرپوزل کے مطابق کسٹمز ونگ اور ان لینڈ سروسز کے گروپوں کے لئے علیحدہ علیحدہ سربراہان مقرر کئے جائیں جوکہ ایف بی آر چیئرمین کی طرح اپنے گروپوں کو چلانے میں بااختیار ہوں۔ تاہم دونوں گروپوں کو یکجا کرنے کے لئے وزارت خزانہ کے ماتحت ایک سیکریٹریٹ بورڈ بنا دیا جائے ۔اس تجویز میں یہ بھی تھا کہ دونوں گروپوں کی جانب سے جمع کئے جانے والے محصولات اور ان کے اخراجات کا حساب کتاب بھی علیحدہ علیحدہ ہونا چاہئے تاکہ ان کی کارکردگی کو علیحدہ علیحدہ جانچا جاسکے ۔

ذرائع کے بقول اس تجویز پر بھی ایف بی آران لینڈ سروسز کے افسران کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔ بعد ازاں ان سفارشات کے کھٹائی میں جانے کے بعد نئی حکومت میں سابق چیئرمین ایف بی آر امجد زبیر ٹوانہ کو وزیر اعظم کی جانب سے اصلاحات کے لئے ٹاسک دیا گیا ۔ جس کو ایف بی آر میں صفائی مہم شروع کئے جانے کا نام دیا گیا ۔ اس مہم کے سلسلے میں رواں برس کے تیسرے مہینے سے سابق چیئرمین نے ان ایف بی آر اور کسٹمز افسران کی فہرستیں مرتب کرنا شروع کیں جن کے ماتحت فیلڈ فارمیشنز کی کارکردگی اچھی نہیں تھی اور ان کی اپنی ساکھ بھی بہتر نہیں تھی ۔

اس سلسلے میں جون تک ایسے 100سے زائد اعلیٰ افسران کی فہرست مرتب کرکے وزیر اعظم کو ارسال کی گئی اور ان کو عہدوں سے ہٹانے کی سفارشات دی گئیں ۔ اس پر عمل در آمد کرتے ہوئے 22 گریڈ سے 19 گریڈ تک کے 100 زائد افسران کو عہدوں سے ہٹا کر ہیڈ کوارٹر میں بھیج دیا گیا ۔ اس معاملے پر بھی ایف بی آر کے اندر سے بہت سے مخالف آوازیں سامنے آئیں اور ایف بی آر افسران نے سابق چیئرمین پر ذاتی پسند نا پسند کے ساتھ مخالف گروپوں کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کا الزام عائد کیا اور اس عمل میں زشفافیت نہ ہونے کا شکوہ کیا ۔ اس کے بعد یہ عمل بھی التوا کا شکار ہوگیا ۔

سابق چیئرمین امجد زبیر ٹوانہ اس وقت اندرونی اور بیرونی دبائو کا شکار ہو کر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے پر تیار ہوگئے جب دو ماہ قبل ان کی جانب سے کئے گئے بعض اعلیٰ افسران کے ٹرانسفرز عدالتوں نے اس وقت کالعدم قرار دینے شروع کئے جب ان متاثرہ افسران نے ادارے کے فیصلوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنا شروع کیا۔

بعد ازاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایف بی آر کے اپنے افسران چیئرمین کی حیثیت سے اصلاحات کرنے میں اس لئے ناکام ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ہی ادارے کے افسران کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں جس پر ایک ڈی ایم جی گروپ کے اعلیٰ افسر راشد محمود لنگڑیال کو ایف بی آر کا چیئرمین بنا کر باہر سے لایا گیا اور انہیں اصلاحات کا ٹاسک دیا گیا۔ جس پر انہوں نے اب دو ماہ کی ورکنگ کے بعد وزیر اعظم کو ایک بریفنگ پیش کی جس میں انہوں نے ایف بی آر میں سزا و جزا کے عمل کو شفاف اور واضح بنانے کی شفارشات دیں ۔ حیرت انگیز طور پر اس میں ایف بی آر کے بعض امور کو معاشی ترقی کے لئے سانپ قرار دے دیا گیا ۔ جس پر ایف بی آر کے اندر شدید ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔

چند روز قبل ادارے میں کرپشن میں ملوث افسران کا سراغ لگانے کے لیے ایجنسیوں کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ جبکہ ر چیئرمین ایف بی آر نے افسران پر واضع کیا کہ ادارے میں جزا و سزا کا سخت نظام لاگو کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو راشد محمود لنگڑیال نے ایف بی آر ہیڈکوارٹر میں سینیئر ٹیکس افسران (گریڈ 17 اور اس سے اوپر) سے خطاب میں ایف بی آر کے نئے اصلاحاتی پلان کے اہم نکات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے افسران کے لیے اضافی مالی مراعات کی منظوری لے لی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر پہلے سے ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسران کو سہہ ماہی بنیادوں پر مراعات دے رہا ہے لیکن اب اس نظام کو مزید بہتر کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں کسی بھی قسم کی کرپشن کو برداشت نہیں کریں گے ۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان افسران پر نظر رکھیں گے جو بدعنوانی میں ملوث ہوں گے انکو کسی طور پر نہیں چھوڑا جائے گا اور سخت کارروائی کی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق چیئرمین ایف بی آر نے انکشاف کیا کہ ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف اضافی اقدامات کیے جائیں گے اور ٹیکس مشینری کو مزید اختیارات دیے جائیں گے تاکہ مالیاتی اداروں سے معلومات کے تبادلے سے متعلق قوانین میں ترامیم کی جا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی آر ماڈل ٹیکس دفاتر اور ڈیجیٹل انفورسمنٹ اسٹیشن قائم کرے گا جبکہ انفورسمنٹ کلیکٹریٹس کے لیے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کیا جائے گا تاکہ درآمدات کے ذریعے ٹیکس بڑھانے پر افسران اور عملے کو بونس دیا جا سکے۔

اس کے بعد گزشتہ روز ان لینڈ ریونیو سروس آفیسرز ایسوسی ایشن نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حالیہ ’’ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ۔ ایسو سی ایشن کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق کچھ میڈیا حلقوں میں کئیگئے دعووں کے برعکس، نام نہاد ٹرانسفارمیشن پلان ایف بی آر کا اندرونی تیار کردہ منصوبہ نہیں ہے۔ آئی آر ایس افسران پر مشتمل عجلت میں بنائی گئی ٹاسک فورس کو صرف ڈیٹا تجزیہ اور ٹیکس گیپ کی نشاندہی کا کام سونپا گیا تھا۔

اس ٹاسک فورس نے ان سفارشات یا تجاویز کی تشکیل میں کوئی کردار نہیں ادا کیا جو اب اس منصوبے میں شامل ہیں۔ نئے چیئرمین کی تقرری کے بعد سے، آئی آر ایس او اے نے بارہا ملاقاتوں کی درخواست کی تاکہ اپنے ممبران کو درپیش چیلنجز پر بات کی جا سکے۔ ان درخواستوں، بشمول باضابطہ تحریری گذارشات، کو نظر انداز کر دیا گیا، اور ہمارے خدشات پر بات چیت کرنے یا ان کو دور کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں دیا گیا۔

آئی آر ایس او اے کا اصرار ہے کہ آئی آر ایس افسران کو دیگر سروس گروپوں کے برابر سمجھا جانا چاہیے۔ 60/40 پیئر ریٹنگ سسٹم کا نفاذ اور مستقل طور پر ایمانداری کے حوالے مسلسل کرنے سے پہلے ہی دبائو میں کام کرنے والے ملازمین کے حوصلے پست ہو رہے ہیں۔ اگر کارکردگی کا جائزہ ضروری ہے تو اسے نئے ٹیکس دہندگان کی رجسٹریشن، کلیکشن/ریکوری کی کارکردگی اور آڈٹ کے نتائج جیسے معروضی معیار کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ سبجیکٹیو پیئر ایویلیوایشن پر۔ IRS افسران کے لیے 60/40 کا فارمولا امتیازی ہے، خاص طور پر دیگر سول سروس ڈسپلنز کے مقابلے میں۔ مزید برآں، IRS افسران کو شفاف مواقع سے محروم کیا جا رہا ہے، جیسا کہ عہدے میں افقی اور عمودی ترقی، سیکریٹریٹ کے عہدے، بیرونی تربیت، مراعات، اور سہولیات کا منصفانہ حصہ۔ یہ بیورو کے باصلاحیت حصے کو گہرائی میں مایوس کر رہا ہے۔