پاکستان کی موجودہ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک سنگین بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مسائل کو حل کرنے کے بجائے حکومت کی پالیسیاں صرف پریس کانفرنسوں اور بیانات تک محدود ہو چکی ہیں۔ ملک کے نوجوان، جو کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، بیرونِ ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ ڈاکٹرز، انجینئرز، پولیس افسران اور دیگر اعلیٰ سرکاری محکموں کے لوگ، جو ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، اب بہتر زندگی کی تلاش میں وطن چھوڑ رہے ہیں۔
گیلپ پالستان کی حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق، 10 میں سے 7 پالستانی سمجھتے ہیں کہ ملک کی موجودہ حالت کام کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اگر انہیں دوسرے ملک جانے کا موقع ملے تو وہ فوراً پالستان چھوڑنے کو تیار ہیں۔ یہ صورتحال ملک کے لیے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ وہ افراد جو ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے تھے، اب بیرون ملک جا رہے ہیں۔
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی رپورٹ کے مطابق، 2023 میں 8 لاکھ 60 ہزار پاکستانیوں نے روزگار کی تلاش میں پالستان چھوڑ دیا، جبکہ 2024 میں اب تک 4 لاکھ 60 ہزار 262 افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ 2024 میں ملک چھوڑنے والوں میں 2 لاکھ 26 ہزار 357 لیبر، ایک لاکھ 14 ہزار 356 ڈرائیورز، 9 ہزار 441 میسن ،5 ہزار 516 انجینئرز، 3 ہزار 964 اکاؤنٹنٹس، 2 ہزار 560 ڈاکٹرز، اور ایک ہزار 193 اساتذہ شامل ہیں۔
اس وقت دنیا کے 50 مختلف ممالک میں تقریباً 1 کروڑ 37 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں، جن میں 96 فیصد خلیجی ممالک میں موجود ہیں
سعودی عرب میں
69 لاکھ 72 ہزار 138، یو اے ای میں 43 لاکھ 74 ہزار ،عمان میں 10 لاکھ 33 ہزار 991 مقیم ہے
2024 میں پنجاب سے 2 لاکھ 57 ہزار 14، خیبرپختونخوا سے 1 لاکھ 13 ہزار 590، سندھ سے 40 ہزار 329، اور قبائلی علاقوں سے 18 ہزار 447 مزدور بیرون ملک ہجرت کر گئے۔
یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ پالستان میں اتنی کم تنخواہیں ہیں کہ ایک عام شخص کے لیے اپنے خاندان کا پیٹ پالنا مشکل ہو چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزمرہ اخراجات نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بڑھتے ہوئے بحران کو روکے اور فوری اقدامات کرے تاکہ ملک کے اندر ہی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
اگر حالات یونہی رہے تو پالستان اپنے بہترین اور ہنر مند افراد سے محروم ہو جائے گا، جس سے نہ صرف ملک کی اقتصادی صورتحال خراب ہوگی بلکہ معاشرتی بحران بھی مزید گہرا ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں اتنی کم تنخواہیں ہیں کہ ایک شخص کے لیے اپنے خاندان کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اخراجات نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ روزمرہ ضروریات پوری کرنا ایک خواب بن چکا ہے اور حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔ حکومت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے قیمتی انسانی سرمائے کو ضائع ہونے سے بچائے اور ایسی پالیسیز اپنائے جن سے نوجوانوں کو ملک کے اندر روزگار کے مواقع مل سکیں۔
اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان نہ صرف اپنے بہترین افراد سے محروم ہو جائے گا بلکہ معاشرتی و اقتصادی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔