فائل فوٹو
فائل فوٹو

کچے کے ڈاکوئوں کو این آر او دینے کی تیاری

نواز طاہر:
کچے کے ڈاکوئوں کو این آر او دینے کی تیاری کی تجویز پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ جس پر اگلے چند روز میں پیش رفت کا امکان ہے۔ جبکہ اس کے متبادل ایک جامع آپریشن سے ڈاکوئوں کا قلع قمع کرکے مقامی لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کی منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ یہ تجویز سندھ کے وزیراعلیٰ کی طرف سے بھی دی گئی تھی اور اب اس پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں یہ تجویز کچے کے علاقے سے پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے رکن ممتاز چانگ نے پیش کی تھی اور سرحدی ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے دیگر جماعتوں کے اراکین نے بھی تائید کی۔ جسے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے خاص طور پر سپورٹ کیا تھا۔

یہ تجویز کیسے قابلِ عمل ہوسکتی ہے؟ اس حوالے سے ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر ممتاز چانگ نے بتایا کہ ’’جس طرح کے حالات بن چکے ہیں۔ ان میں پہلا حل تو یہ ہے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے سہولت کار پولیس اہلکاروں کو منظر اور رابطوں سے ہٹایا جائے۔ جائزہ لیا جائے کہ وہاں کتنے لوگوں کو خود پولیس نے ڈاکو یا ان کا ساتھی بنایا یا ظاہر کیا اور جعلی مقابلے کرنے کے ساتھ مقدمات میں ملوث کیا۔ ان سب کی درجہ بندی کی جائے اور چھوٹے موٹے جرائم والوں کی عام معافی کا طریقِ کار بنایا جائے۔

بڑے جرائم والوں کو بھی دھارے میں لایا جائے اور وہاں لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ جن میں روزگار بھی شامل ہے۔ لیکن یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ معاملات طے پانے پر وہاں کے لوگوں کے پاس کاشتکاری اور گلہ بانی جیسے روزگار کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ جو پولیس اور ڈاکوئوںکی ملی بھگت سے ان کی دسترس سے باہر ہیں۔ پولیس موجودہ صورتحال میں حالات پر قابو نہیں پا سکتی۔ صرف پاک فوج ہی اس مسئلے کا حل ہے اور اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اس علاقے کا ہر شہری نہ تو جرائم پیشہ ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ تھوڑی سے ریاستی اور سماجی توجہ سے حالات بدل سکتے ہیں۔ جیسا کہ کچے کے ایک خاندان کے ایک بچے نے پنجاب کے لٹریسی پروگرام کے تحت مویشی چراتے ہوئے چراگاہ سے ملحقہ سینٹر میں تعلیم جاری رکھی۔ وہیں سے پرائمری پھر مڈل اور مٹرک کرکے اعلیٰ پوزیشن لی اور پاک فوج میں بھرتی ہوکر ملک کا دفاع کرنے والوں میں شامل ہوچکا۔ اس کے خاندان اور قریبی رشتہ دار بھی جو چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث کہے جاتے تھے، اب تائب ہوچکے ہیں۔ ایسے مواقعے سب کو ملنا ضروری ہیں‘‘۔

دوسری جانب صوبائی حکومت تسلیم کرچکی ہے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے پاس جدید جنگی ہتھیار ہیں۔ جن کی موجودگی میں پولیس وہاں کامیاب آپریشن نہیں کرسکتی۔ جس میں جغرافیائی حالات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ پولیس کو نائٹ ویژن سمیت جدید آلات، بکتر بند گاڑیاں فراہم کرنے کیلئے پیش رفت کی جارہی ہے۔ تاہم اس کے علاوہ کافی مسائل ہیں۔

اسپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف بندوق سے حل ہونے والا نہیں۔ اس کا انتظامی، سیاسی اور سماجی جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کیلئے پارلیمانی امور کے وزیر اور رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے اراکین باہم مل بیٹھ کر تمام حالات کا جائزہ لیں اور تجاویز پیش کریں۔ جس کے بعد پارلیمانی کمیٹی کچے کا دورہ کرکے اپنی تجاویز دے اور ان تجاویز پر ، وفاقی، صوبائی اور سندھ حکومت سے عملدرآمد کرایا جائے۔ کچے کے علاقے میں پٹارو طرز کے اقدامات کے ساتھ ساتھ، کیڈٹ کالج بنایا جائے۔ انفرااسٹرکچر اور سرمایہ کاری کی جائے۔ ممتاز چانگ نے کیڈٹ کالج کیلئے پچاس سے سو ایکڑ اراضی بلا معاوضہ دینے اور علاقے میں مزید تھانے تعمیر کرنے کیلئے زمین کی فراہمی کا بھی اعلان کیا ہے۔

پنجاب حکومت کی طرف سے ڈاکوئوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے واضح اور کھل کر رائے کا اظہار نہیں کیا جارہا۔ تاہم میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی برائے امن و امان کے اگلے چند روز میں ہونے والے اجلاس میں تمام امور کا جائزہ لیا جائے گا۔ جس میں رحیم یارخان سے تعلق رکھنے والے اراکین کو مدعو کیا جائے گا۔ محکمہ داخلہ سمیت تمام اداروں کی بریفنگ ہوگی اور اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی آڑ اور پناہ میں ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں اور پناہ گاہوں کی اطلاعات بھی ہیں۔ جن کے خاتمے کیلئے بھی فوجی آپریشن کی تجویز دی جارہی ہے۔ ممتاز چانگ کا کہنا ہے کہ پینسٹھ کلومیٹر کے اس حصے پر فوجی آپریشن سے ادارہ جاتی کنٹرول اور زمینوں پر قبضے ختم کرواکر مقامی لوگوں کے حوالے کرنے سے امن قائم ہوجائے گا۔ یہ خطہ اور چند لاکھ شہری قومی دھارے میں آجائیں گے۔ بصورتِ دیگر مزید غفلت سے سماج دشمن عناصر یہاں اپنی گرفت مزید مضبوط کرلیں گے اور یہ مکمل طور پر علاقہ غیر بن جائے گا۔ جو ملکی سالمیت کیلئے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔