اقبال اعوان:
کراچی میں بائیک ریس کا خونیں کھیل ختم نہیں کرایا جاسکا۔ متعدد بار سخت قانون سازی کے اعلان کے باوجود عملدرآمد نہیں کیا جاسکا۔ پولیس مک مکا کرکے مال بنانے میں مصروف ہے۔ شوقین لڑکے آئے روز حادثات کاشکار ہورہے ہیں۔ مرنے والے یا زخمی ہونے والے نوجوانوں کے ورثا رپورٹ نہیں کراتے اور واقعات کو حادثاتی ظاہر کرتے ہیں۔
دوسری جانب بائیک کی خصوصی آلٹریشن کرنے والے مکینک بھی غیر قانونی کاموں میں مصروف ہیں اور من مانے ریٹ لیتے ہیں۔ ہائی ویز سمیت 10 سڑکیں جمعرات، ہفتے کی رات بائیک ریس کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ اس خونیں کھیل کو شوق کے ساتھ مالی فائدے (جوئے) کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور لاکھوں روپے کا جوا ہوتا ہے۔ کراچی میں ایک بار پھر بائیک ریس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جب دو تین واقعات میں جانیں جاتی ہیں اور میڈیا میں چلتا ہے تو علاقے کی پولیس پھرتی دکھاتی ہے اور پابندی لگا کر روکتی ہے۔ اور پھر چند روز میں دوبارہ شروع کردیتے ہیں۔ اس دوران پولیس تماشائی بن جاتی ہے۔ شہر میں ان کے خلاف کریک ڈائون کرنے کے اعلان کئے گئے کہ اس کے خلاف سخت قانون سازی کی جائے گی۔ پکڑے جانے پر جرمانہ اور جیل کی سزا ہوگی۔ مکینک جو بائیکس تیار کرتے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ تاہم معاملہ دیگر مسائل بننے اور جرائم کی شرح بڑھنے پر سرد خانے کی نذر ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے سندھ رینجرز نے بھی کارروائی کی تھی اور اس خونیں کھیل کو کافی حد تک ختم کرادیا تھا۔ تاہم پولیس کی کرپشن اور نااہلی اس کو دوبارہ زندہ کرچکی ہے۔ نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے ، آر سی ڈی ہائی ویز کے علاوہ سی ویو ، شاہراہ فیصل، حب ریور روڈ ، ماڑی پور روڈ، ہاکس بے روڈ، ناردرن بای پاس ، اسٹیل ٹائون سے گھارو تک خوفی کھیل ہفتے کی رات سے اتوار کی علی الصبح تک جاری رہتا ہے۔ اب آئے روز بائیکس سے گرنے کے دوران زخمی ہونے یا بعد میں مرنے کے بارے میں اطلاعات کم آتی ہیں کہ اسپتال میں کہا جاتا ہے کہ ٹوٹی سڑک یا سڑک پر گڑھے میں گرنے سے چوٹ لگی ہے اور زیادہ تر بائیکر ہی اٹھاکر لاتے ہیں۔ گھر والے بھی معاملہ ختم کرادیتے ہیں کہ اپنے بچوں کی غلطی ہے۔ 15 سال سے 20 سال تک کے لڑکے زیادہ شوقین ہوتے ہیں ۔
لڑکوں کا کہنا ہے کہ یہ شوق ہیروئن کے نشے سے زیادہ لگتا ہے کہ بعض لڑکوں کے پہلے بھی حادثے ہوچکے ہیں۔ ہاتھ ، پائوں ، کندھے کی ہڈیاں پسلیاں تڑواچکے ہوتے ہیں اور دوبارہ ٹھیک ہوکر دوبارہ شوق پورا کرتے ہیں۔ کئی لڑکے مستقل طور پر معذور ہوچکے ہیں۔ ان کی موت بھی ایسی ہوتی ہے کہ فلاحی ادارے کے رضاکار، کچلی ہوئی لاشیں اٹھاتے ہیں۔ اور سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل کردی جاتی ہے۔ اس کے باوجود یہ کھیل ختم نہیں ہورہا ہے۔ ملیر ندی میں رواں سال کے پہلے مہینے میں شاہ فیصل کالونی اور باغ کورنگی کے دو لڑکے شایان اور حسن ملیر ندی میں بننے والے ملیر ایکسپریس وے کے زیر تعمیر حصے میں ریس کے دوران حادثے کا شکار ہوکر جان سے گئے تھے۔ جبکہ 6 لڑکے شدید زخمی ہوئے تھے۔
اس کے بعد چند روز پولیس نے سختی کی اور پھر اس ریس کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ واقعہ کا مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ ذرائع کے بقول بااثر اور بعض سیاسی شخصیات نے اس خونیں شوق کو جوا کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور سرپرستی کرنے کے علاوہ پولیس سے بچاتے ہیں۔ اس میں بعض بڑے گینگ بھی شامل ہیں جن میں بالی ایکس، ثاقب، تیسرا گروپ بابو اور چوتھا نانا گروپ ہے۔ اس طرح درجنوں گروپس ریس کراتے ہیں۔ اب بائیکر پر جوا لگتا ہے۔ اور جیتنے والے کو 10 ہزار سے 20 ہزار روپے ملتے ہیں۔ باقی جوا کرانے والوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ واٹس ایپ پر رابطے ہوتے ہیں کہ فلاں روز فلاں سڑک پر اتنے بجے ریس ہوگی۔ بڑی تعداد میں شوقین اور تماشائی جاتے ہیں۔ شہر کے ہر علاقے میں بائیک مکینک آلٹریشن کا کام کرتے ہیں۔