عمران خان :
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے پولیس آفیسر بن کر ملک بھر کے ہزاروں شہریوں سے کروڑوں روپے لوٹنے والے متعدد فراڈ گروپوں کو ٹریس کرلیا۔ سائبر کرائم ونگ ملتان ریجن کی ٹیموں کی کارروائیوں میں گرفتار ہونے والے اس نیٹ ورک کے 30 سے زائد ملزمان سے تفتیش میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔
مذکورہ گروپوں کے کارندے پنجاب کے دور دراز اور مضافاتی علاقوں کے دیہاتوں میں خفیہ ٹھکانے بنا کر کئی برسوں سے یہ وارداتیں کر رہے تھے۔ جس کے لیے ملزمان نے جعلسازی سے شہریوں کے فنگر پرنٹس استعمال کرکے ہزاروں سمیں ایکٹو کرواکر استعمال کیں۔
ملزمان نے تحقیقات میں انکشاف کیا ہے کہ وہ پولیس آفیسر بن کر ملک بھر کے شہریوں کو ان کے بچے یا دیگر عزیز وں کے مختلف جرائم میں گرفتار ہونے کی اطلاعات دے کر رہائی کے لیے لاکھوں روپے وصول کرنے کے ساتھ ہی مختلف ملکی اور غیر ملکی مالیاتی اداروں بشمول ویزا کارڈ، دبئی بینک اور مقامی بینکوں کے نمائندہ بن کر بھی پاکستانی اور غیر ملکیوں کو لوٹتے رہے۔ اس کے لیے ملزمان، سادہ لوح شہریوں کو آسان شرائط پر بھاری قرضے دینے کا جھانسادیتے رہے۔ ساتھ ہی پہلے سے قرضہ لینے والے شہریوں کے کوائف حاصل کرکے ان کے قرضے معاف کروانے کا لالچ دے کر بھاری کمیشن بھی وصول کرتے رہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برسوں میں ملک بھر میں اچانک ایسی وارداتیں رونما ہونا شروع ہوگئی تھیں، جن میں شہریوں کو مختلف نمبروں سے کالز کی جاتیں رہیں کہ فلاں علاقے کا ایس ایچ او، فلاں صوبے کے سی آئی اے ڈپارٹمنٹ یا سی ٹی ڈی (کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ) سے بات کر رہا ہوں۔آپ کا بیٹا فلاں جرم میں پکڑا گیا ہے۔ اگر اس کو رہاکروانا چاہتے ہیں تو فوری طور پر اتنی رقم فلاں اکاؤنٹ میں بھجوا دیں۔ اس کے ساتھ ہی مذکورہ شخص کو اس کے عزیز کی آوازیں سنوائی جاتیں جس میں وہ مدد کے لیے پکار رہا ہوتا کہ وہ ان کے قبضے میں ہے اور فوری طور پر ان کی ڈیمانڈ پوری کردیں۔ ایسی صورت حال میں شہریوں کا فوری طور پر بوکھلا جانا اور سوچنے سمجھنے کی حس کا کام چھوڑ دینا فطری عمل ہوتا ہے۔ اور اسی وجہ سے اب تک کئی ہزار شہری ایسی وارداتوں میں ان جعل سازوں کو رقوم بھجوا چکے ہیں۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق اب تک ملک بھر سے ایسی لاتعداد وارداتوں کی رپورٹ پولیس اور ایف آئی اے میں درج کروائی جاچکی ہیں۔ ان کی تفتیش اس وقت ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے ملک بھر کے دفاتر میں کی جا رہی ہے۔ تاہم ایسی سینکڑوں انکوائریوں کی تحقیقات میں استعمال ہونے والے نمبرز کی لوکیشن، انٹر نیٹ کے آئی پی ایڈریس اور اکاؤنٹ نمبروں کی تفصیلات کے ذریعے جو معلومات سامنے آئیں۔ ان کے مطابق ملزمان ان وارداتوں کے وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں موجود پائے گئے۔
گزشتہ ایک ماہ میں اس حوالے سے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ملتان نے ایک خصوصی ٹاسک کے ذریعے ان گروپوں کے کارندوں کی گرفتاریوں کے لئے ایک کریک ڈاؤن شروع کیا۔ جس میں مختلف ٹیموں کو ملتان ریجن اور اطراف کے علاقوں کے لئے ٹاسک دیئے گئے۔ گزشتہ ایک ماہ کی انتھک محنت اور تفتیش کے نتیجے میں اب تک ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ ملتان ونگ کی ٹیمیں ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالغفار کی نگرانی میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سمیت اسلام آباد کے شہریوں کو ان کے عزیزوں کی گرفتاریوں کا جھانسا دے کر رہائی کے لئے کروڑوں روپے لوٹنے والے کئی جعلساز گروپوں کو ٹریس کرنے کے بعد ان کے 20 سے زائد کارندوں کو حراست میں لے چکی ہیں۔
اسی آپریشن کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ملتان کی ٹیم کو ایک خفیہ اطلاع ملی کہ ملتان کے پوش علاقے ماڈل ٹاؤن میں ایک گینگ خود کو بینک اور لا اینڈ آرڈر کے افسران ظاہر کر کے آن لائن سروسز کی آڑ میں غیر ملکیوں سے فراڈ کر رہا ہے۔ اس گروپ نے خاص طور پر دبئی بینک کے کھاتے داروں کو نشانہ بنایا۔ جبکہ ان کی وارداتوں کا دائرہ متحدہ عرب امارات سے لے کر وسطی ایشیا کے ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے کارندے انگریزی اور عربی زبان بولنے کے ماہر ہیں۔ اس گینگ کے سربراہ فیصل اقبال اور ارشد بٹ ہیں۔ جس پر ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس نے مذکورہ مکان پر چھاپہ مارا اور پہلے ملزم فیصل اقبال کو حراست میں لیا گیا اور اسی کی نشاندہی پر مکان کی اوپر والی منزل پر موجود 17 افراد کو گرفتار کر کے مقدمہ نمبر 93/2024 درج کیا گیا۔ جائے وقوعہ سے کثیر تعداد میں موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور دیگر اہم دستاویزات بھی قبضے میں لی گئیں۔
اسی طرح سے ایک دوسری کارروائی میں آن لائن فراڈ میں ملوث 3 منظم گروپوں کو ٹریس کرنے کے بعد مختلف چھاپوں میں ان کے 8 کارندوں کو گرفتار کیا گیا۔ یہ گروپ خاص طور پر ’’اسپوف کالنگ‘‘ کی وارداتوں میں ملوث تھے۔ ملزمان کو چھاپہ مار کاروائی میں خانیوال، جھنگ اور ملتان کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا۔ گرفتار ملزمان میں عمران، عرفان علی، شفقت علی، محمد غازی، محمد شاہد، محمد سمیر، محمد شہزاد، محمد دانش شامل ہیں۔ ملزمان خود کو بینک نمائندہ، پولیس انسپکٹر اور ویزا ایجنٹ ظاہر کر کے شہریوں کو اپنے جال میں پھنساتے تھے۔
یہ ملزمان متاثرین کو کال پر رشتے دار کی جعلی گرفتاری کی اطلاع دیتے اور ان کی رہائی کے لئے رقم وصول کرتے تھے۔ تحقیقات میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ملزمان ملکی نمبروں کے ساتھ ہی غیر ملکی نمبرز کا بھی استعمال کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ملزمان ایسی وارداتیں بھی کر رہے تھے جس میں وہ کسی کا قریبی عزیز بن کر کال کرتے تھے اور ایمرجنسی کا بتا کر بھاری رقوم منگوا لیتے تھے۔ ملزمان بینک نمائندہ ظاہر کر کے شہریوں کے بینک اکائونٹ کی خفیہ معلومات بھی حاصل کرتے تھے۔
ملزمان متاثرہ شہریوں کے بینک اکائونٹس تک رسائی حاصل کرتے ہوئے انہیں ان کی جمع پونجی سے بھی محروم کر دیتے تھے۔ جبکہ ہتھیائی گئی بھاری رقوم مختلف بینک اکائونٹس میں وصول کی جاتی تھی۔ اس کارروائی میں ملزمان کے قبضے سے 10 موبائل فونز، بینک ٹرانزیکشن سلپس، فارن بینک اکائونٹ سلپس بھی برآمدہوئیں۔ ساتھ ہی جرائم میں استعمال ہونے والی 25 نیشنل اور انٹرنیشنل سمز بھی برآمد کر لی گئیں۔
مزید معلوم ہوا کہ ملزمان بین الاقوامی بینک کے صارفین کو بھی کال کر کے اپنے جال میں پھنساتے تھے۔ جبکہ ملزمان لون کا جھانسہ دے کر بھی بین الاقوامی صارفین سے خفیہ معلومات حاصل کرتے تھے۔ اس کے بعد ملزمان خفیہ معلومات کی بنیاد پر بین الاقوامی صارفین کے نام پر لون نکلواتے تھے۔ بعد ازاں لون کے نام پر حاصل کردہ رقوم پاکستان منتقل کی جاتی تھی۔ یہ ملزمان انگریزی اور عربی زبان میں مہارت رکھتے ہیں۔ ملزمان زبان کی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے معصوم شہریوں کو لوٹتے تھے۔ ملزمان کا فراڈ نیٹ ورک پاکستان سے باہر مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
ملزمان بینک صارفین کے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کی تفصیلات بھی حاصل کرتے ہوئے رسائی حاصل کرتے تھے۔ تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ملزمان پوائنٹ آف سیل مشین کے ذریعے مذکورہ کارڈز سے رقوم نکلواتے تھے جس کے لئے یہ شہریوں کے بینک کارڈز کی تفصیلات کال سینٹرز سے حاصل کرتے تھے۔ جعلسازی سے بٹوری گئی رقوم کرپٹو اور بینک اکائونٹ میں وصول کی جاتی رہیں۔