امت رپورٹ :
پاک بھارت کرکٹ میچ صرف کھیلوں کے مقابلے نہیں بلکہ کمائی کے لحاظ سے سونے کی کان ہیں۔ جس کا بڑا حصہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی ) کی تجوری میں بھی جاتا ہے۔
فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق گزشتہ بیس برس میں بھارت اور پاکستان کے میچوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تخمینہ تقریباً ایک ارب تیس کروڑ ڈالر ہے۔ جو انڈین دس ہزار کروڑ روپے اور پاکستانی بتیس ہزار نو سو باون کروڑ روپے بنتے ہیں۔
اس اعداد و شمار میں برانڈ اسپانسرشپ، نشریاتی حقوق، ٹکٹوں کی فروخت اور کھیلوں کی مارکیٹنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی شامل ہے۔ مثال کے طور پر اگر دو ہزار تئیس کے ایشیا کپ میں پاک بھارت میچز سے ہونے والی آمدنی پر ہی نظر ڈال لی جائے تو صرف نشریاتی حقوق تقریباً ایک سو ملین ڈالر میں فروخت کیے گئے تھے۔ ٹکٹ منٹوں میں فروخت ہو گئے، جس سے لاکھوں کی الگ آمدنی ہوئی تھی۔ اربوں روپے اشتہارات کی مد میں حاصل ہوئے۔ اس ایونٹ میں پاک بھارت میچ کے دوران دس سیکنڈ کے اشتہار کے پچیس سے تیس لاکھ روپے وصول کیے گئے تھے۔
یوں بھارتی ہٹ دھرمی کے ردعمل میں اگر پاکستان آئندہ اس کے ساتھ کسی بھی ایونٹ میں نہ کھیلنے کا حتمی فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے پاکستان کے مقابلے میں آئی سی سی اور بھارت کو کہیں زیادہ مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ سب سے بڑھ کر ایسے کسی بھی عالمی ٹورنامنٹ کی اہمیت دو ٹکے کی رہ جائے گی جس میں کرکٹ کے یہ دو روایتی حریف مد مقابل نہ ہوں۔ لہذا بھارتی بدمعاشی کے نتیجے میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کو پاک بھارت مقابلے سے زیادہ کسی اور کے میچز میں دلچسپی نہیں۔
واضح رہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے چیمپئنز ٹرافی دو ہزار پچیس کے لیے بھارت کے پاکستان نہ آنے کے فیصلے سے پی سی بی کو آگاہ کردیا ہے۔ جبکہ حکومت پاکستان نے بھارتی ہٹ دھرمی اور پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بھارت نہیں آیا تو پاکستان بھی آئندہ ورلڈکپ سمیت کسی ایونٹ میں بھارت کے ساتھ میچز نہیں کھیلے گا۔ اور نہ ہی بھارت میں ہونے والے کسی کرکٹ ایونٹ میں شرکت کیلئے وہاں جائے گا۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی ہو گی اور کسی بھی قسم کا ہائبرڈ ماڈل قبول نہیں ہو گا۔ اس پاکستانی جواب نے بھارت کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی سٹی بھی گم کردی ہے۔ مستقبل میں بھارت آئی سی سی کے تین بڑے ایونٹس کی میزبانی کرنے جارہا ہے۔ ان میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دو ہزار چھبیس، چیمپیئنز ٹرافی دو ہزار انتیس اور ورلڈ کپ دو ہزار اکتیس شامل ہیں۔ ان میں سے دو ایونٹ سری لنکا اور بنگلہ دیش کی مشترکہ میزبانی میں ہوں گے۔
پاکستان کی عدم شرکت کے سبب ان تینوں ٹورنامنٹس کی اہمیت دو ٹکے کی رہ جائے گی۔ اب یہ بھارت کے ہاتھ میں ہے کہ اپنی جھوٹی انا کو چھوڑ کر چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے شرافت سے پاکستان آجائے۔ ورنہ نتائج کے طور پر اپنی میزبانی میں آئی سی سی کے تین بڑے کرکٹ ٹورنامنٹس کو مٹی کرلے۔ پاکستان کی عدم موجودگی میں اسے نہ بڑے اسپانسر ملیں گے اور نہ ٹکٹوں کی مد میں آمدنی ہوگی۔
چیمپیئنز ٹرافی میں لگ بھگ تین ماہ باقی ہیں۔ جس کے میچز اگلے برس انیس فروری کو شروع ہوکر انیس مارچ کو اختتام پذیر ہوں گے۔ رولز کے مطابق ایونٹ سے نوّے روز قبل آئی سی سی نے میچز کے شیڈول کا اعلان کرنا ہے۔ اس لحاظ سے دو چار روز میں یہ شیڈول جاری ہوجانا چاہیے۔ لیکن موجودہ صورت حال میں اس اعلان میں تاخیر خارج از امکان نہیں۔ آئی سی سی اور بھارت دونوں کو یہ توقع نہیں تھی کہ پاکستان کی جانب سے اس قدر سخت موقف اپنایا جائے گا۔ وہ یہ سوچے بیٹھے تھے کہ جس طرح گزشتہ برس ایشیا کپ کے موقع پر پاکستان نے میزبان ہونے کے باوجود بھارت کی ہٹ دھرمی کو قبول کرتے ہوئے ہائبرڈ ماڈل کے تحت اس کے میچز سری لنکا منتقل کر دیے تھے۔ اس بار بھی خاموشی سے پاکستان یہ مطالبہ تسلیم کرلے گا۔
مبصرین کے مطابق اگر بھارت کا مطالبہ مان لیا جاتا ہے تو پھر یہ ایک باقاعدہ روایت پڑ جائے گی اور آئندہ سب کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر عالمی ٹورنامنٹ کے میزبان ملک کے بجائے اپنے پسندیدہ ملک میں میچ کھیلنے کا مطالبہ کرنے لگیں گے۔ لہذا اس سلسلے کو بریک لگانے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی ایشیا کپ کا معاملہ اور تھا۔ وہ ایک ریجنل ایونٹ تھا۔ چیمپئنز ٹرافی ایک بین الاقوامی ایونٹ ہے اور اسے منی ورلڈ کپ قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے بھارت کو غیرت مندانہ جواب کو عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کے مطابق اگر ایشیا کپ کے موقع پر ہی پاکستان بھارت کو منہ توڑ جواب دیتا تو وہ اتنا منہ زور نہیں ہوسکتا تھا۔ تاہم دیر آید درست آید کے مصداق اب پاکستان نے جو دو ٹوک موقف اپنایا ہے۔ پوری قوم اس کے پیچھے کھڑی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے سخت ردعمل پر خود انڈین اسپورٹس صحافیوں اور یوٹیوبرز کا ایک بڑا حصہ خود اپنی ہی حکومت پر برس پڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی جھوٹی انا کے سبب کرکٹ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دونوں ممالک کے عوام پاک بھارت کرکٹ مقابلے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مودی سرکار کی سیاست انہیں اس سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔
ادھر بھارت نیوزی لینڈ کے بعد جنوبی افریقہ سے بھی اپنے ہوم گراؤنڈ پر ذلت آمیز طریقے سے شکست کھارہا ہے۔ ٹھیک اس دوران پاکستان نے پہلے انگلینڈ کو ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ سیریز میں تاریخی شکست دی اور اب ون ڈے سیریز میں بائیس برس بعد آسٹریلیا کو اس کی سرزمین پر روند ڈالا۔ اس سے کرکٹ کی دنیا میں ایک بار پھر پاکستان کا وزن بڑھ گیا ہے۔ لہذا آئی سی سی کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا کہ وہ بھارت کی خوشنودی کے لیے پاکستان کو نظرانداز کر دے۔