کاشف ہاشمی :
کراچی میں سیف سٹی پراجیکٹ کے دعوے دھر ے کے دھرے رہ گئے۔ اس حوالے سے صرف ’’سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپا جارہا ہے۔ سیف سٹی پروجیکٹ کے قیام کا عمل برسوں قبل شروع ہوا، جس کے لیے پہلے سندھ حکومت کے ایک چہیتے پولیس افسر مقصود میمن کو ٹاسک دیا گیا تھا۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، اسی طرح اس پروجیکٹ کا بجٹ بھی بڑھتا گیا۔ اور یہ منصوبہ تا حال پورے شہر میں نافذ نہیں ہو سکا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں بیشتر ایسے مقامات جہاں لوگوں نے اپنی سیکورٹی کے لیے خود کیمرے لگائے ہیں، ان کو بھی پولیس کی معاونت کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ حالاں کہ یہ کیمرے شہریوں نے اپنے خرچے پر لگائے ہیں۔ ایک طرف یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ ہے اور پولیس کی بھاری نفری ہے۔ وہیں اگر شہر کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر انڈر گرائونڈ کیبلز اور بجلی کے پول پہ لگے ہوئے ڈیوائسز سمیت پلوں کے اوپر لگے آہنی ریلنگ، نشے کے عادی افراد چوری کر کے نکال کے لے کے جا رہے ہیں اور باسانی اسے بیچتے ہیں۔ یہ کام روزانہ کی بنیاد پر پورے شہر میں جاری ہے۔ تاہم کسی سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت نہ تو ان ملزمان کو پکڑا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کی روک تھام کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب درجنوں شہریوں کو روزانہ لوٹا جا رہا ہے۔ کراچی میں رواں برس 101 افراد صرف مزاحمت کے دوران ملزمان کی فائرنگ سے جان بحق جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہو کر مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو سندھ میں کراچی سے لے کر کچے کے علاقے تک ہر جگہ لاقانونیت ہے۔ اور جہاں جس کا زور چل رہا ہے وہ اپنا زور چلا کر قانون کو توڑ رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات نے سیف سٹی پراجیکٹ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا دیئے ہیں۔ چند روز قبل سندھ پولیس کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو سیف سٹی پراجیکٹ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تھی۔ جس میں منصوبے سے متعلق 300 کھمبوں میں سے 157 کھمبوں کے نصب کرنے اور 20 کھمبوں کے مکمل طور پر فعال ہونے کے حوالے سے بتایا گیا۔
بریفنگ میں 100 نگرانی والے کیمرے سی پی او کنٹرول روم اور ssca ہیڈ کوارٹر کے اہم علاقوں کی فعال طور پر نگرانی سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اور مزید بتایا گیا کہ ایکسپو سینٹر، شاہراہ فیصل، ائیر پورٹ اور سوک سینٹر جیسے اہم علاقوں کی نگرانی کو فعال کردیا گیا ہے۔ آئی جی سندھ نے سیف سٹی پراجیکٹ کی ترقی کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ شہر بھر میں مجموعی طور پر 35000 ہزار کیمرے نصب کردیئے گئے ہیں۔ تاہم شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی کارکردگی پر جہاں ایک طرف کسی بات پہ اطمینان ملتا ہے۔ وہیں دوسری جانب لاقانونیت دیکھ کر عوام کا پولیس پر اعتماد کھوتا جا رہا ہے۔ جس کے پاس اسلحہ ہے وہ شہر میں بدمعاشی کر رہا ہے۔ جگہ جگہ پتھارے لگائے ہوئے ہیں جس نے نہ صرف ٹریفک کا نظام بلکہ لوگوں کا نظام زندگی بھی بری طریقے سے متاثر کر دیا ہے۔
کوئی شخص ان تجاوزات کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ سیف سٹی پروجیکٹ کا قیام ہو یا شہر میں ایماندار افسران کی تعیناتی۔ یہ سب اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب اوپر کی سطح پر لوگوں کی نیت کام کرنے کی ہو اور اس شہر اور صوبے سے جرم کے خاتمے کا عزم ہو۔ کراچی میں اگر رواں سال ہونے والے ہائی پروفائل واقعات پر نظر ڈالی جائے تو اس میں ڈی ایس پی علی رضا کا قتل اور اسی طرح کی فرقہ وارانہ قتل کی وارداتیں سامنے آئیں۔
گزشتہ ماہ کراچی ایئرپورٹ پر ایک خودکش دھماکہ ہوا۔ دہشت گرد تین روز تک بارود سے بھری گاڑی لے کر شہر کے مختلف مقامات پر گھومتا رہا۔ اس دوران اس نے اپنے ٹارگٹ کی مکمل رکھی بھی کی اور جب وہ انتہائی حساس علاقے میں پہنچا اور اپنا ٹارگٹ پورا بھی کیا، اس دوران کسی بھی جگہ پر اس کو مشکوک ہونے کا کوئی بھی الرٹ جاری نہیں ہوا۔ سیف سٹی پروجیکٹ کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے بلکہ آنے والے دنوں میں اور جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس کے لیے اعلیٰ سطحی تیاری مکمل کی جائے۔ تاکہ مستقبل میں اس طرز کے واقعات کا سد باب کر سکیں اور اس میں ملوث عناصر کی سرکوبی بھی کی جا سکے۔