سیاسی و سماجی رہنمائوں نے پی ٹی آئی احتجاج کو ملکی مفاد کے منافی قرار دیدیا، فائل فوٹو
 سیاسی و سماجی رہنمائوں نے پی ٹی آئی احتجاج کو ملکی مفاد کے منافی قرار دیدیا، فائل فوٹو

بیشتر پی ٹی آئی ورکرز اٹک سے واپس لوٹ گئے

محمد قاسم/ نواز طاہر:
صوبہ خیبرپختون سے روانہ ہونے والا قافلہ صوابی تک تو پروٹوکول کے ساتھ پہنچایا گیا۔ تاہم اس سے آگے اسے رکاوٹوں اور پولیس کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے ورکرز پارٹی رہنمائوں سے نالاں نظر آ رہے ہیں۔ جو گاڑیوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور کارکنوں کو ایک بار پھر پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

پھر سخت سیکیورٹی انتظامات اور رکاوٹوں سمیت پولیس سے جھڑپوں کے باعث گرفتاریوں کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ جس کے سبب اٹک سے آگے بیشتر ورکرز نے واپسی کی راہ اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔ یہی سبب ہے ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے نئی حکمت عملی کے تحت قافلے کی رفتار مزید سست کر دی ہے۔ تاکہ واپس جانے والے ورکرز قافلے میں دوبارہ شامل ہو جائیں۔ جبکہ سوشل میڈیا پر بھی مہم تیز کر دی گئی ہے۔ تاکہ مزید ورکرز اسلام آباد کی طرف جانے والے قافلے کارخ کریں۔

لیکن صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کو جہاں رکاوٹوں اور پولیس کا سامنا ہے۔ وہیں باقی رہ جانے والے ورکرز بھی تھکان کا شکار ہیں اور ان کی ہمت جواب دے رہی ہے۔ ایسے میں پارٹی رہنما، اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور صوبائی وزرا اپنی گاڑیوں میں دبکے ہوئے ہیں۔ گاڑیوں سے تھوڑے سے وقت کیلئے نکل کے تقاریر کرتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹک سے آگے وفاقی حکومت کی طرف سے بہت زیادہ سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں۔

پی ٹی آئی ورکرز کیلئے رکاوٹوں کو عبور کر نا مشکل ہوگیا تھا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں گرفتاریوں کیلئے قیدیوں کی گاڑیاں پہنچا دی گئی ہیں۔ دونوں شہروں میں سیکورٹی کے انتہائی سخت ترین انتظامات ہیں اور ڈی چوک کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب خیبرپختون کا پنجاب اور اسلام آباد کے ساتھ رابطہ منقطع ہونے کے باعث اشیائے خور و نوش کی ترسیل بند ہو گئی ہے۔ جس کے باعث صوبہ کے پی میں مختلف اشیا کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جان بچانے والی ادویات سمیت مختلف اقسام کی دوائیں اور پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی بھی بند ہو چکی ہے۔ پشاورکے مسافر اڈوں میں گاڑیاں کھڑی کر دی گئی ہیں اور ٹرانسپورٹرز خالی گاڑیوں میں بیٹھے احتجاج ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں علاقہ بارہ کہو کے ایک رہائشی محمد حفیظ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں جب بھی پی ٹی آئی احتجاج کی کال دیتی ہے تو کام بند ہو جاتا ہے۔ وہ رنگ و روغن کرتے ہیں اور جو دیہاڑی ملتی ہے، گھر کا خرچہ کرلیتے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے پے در پے احتجاجوں کے باعث گھر میں بے روزگار ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان کے دیگر ساتھی بھی ایک وقت کے کھانے کو ترس رہے ہیں۔

مہینے کے آخری دن ہیں اور بجلی و گیس کے بل جمع کرانے ہیں۔ بچوں کے اسکول کی فیسیں بھی ادا کرنی ہیں۔ اگر اسی طرح کام بند رہا تو یہ تمام معاملات کیسے چلیں گے۔ جبکہ ساتھ ہی پشاور شہر سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں موبائل فون سروس اور ڈیٹا کے ذریعے انٹرنیٹ دوسر ے روز بھی بند رہا۔ جس سے آن لائن بزنس کرنے والوں سمیت پرائیویٹ دفاتر میں کام کرنے والے افراد کو شدید پریشانی و مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسری جانب لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں اتوار کو کہیں دکھائی نہ دینے والے پی ٹی آئی رہنما منظرِ عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ موٹر وے تاحال بند ہے۔ البتہ لاہور سے ملحقہ علاقوں میں جانے کیلئے راستے کھل گئے ہیں۔ البتہ آمد و رفت کے ذرائع پوری طرح بحال نہیں ہوئے۔ جبکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کارکنان کے حملوں میں ایک اہلکار شہید اور ستّر سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔

سرکاری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے پولیس پر مظاہرین کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے مظاہرین کے پاس شارٹ مشین گنیں، آنسو گیس، چاقو اور ماسک تھے۔ جن کی مدد سے حملے کیے گئے۔ یہ اسلحہ اور دفاعی سامان صرف پولیس کے زیر استعمال ہوتا ہے۔ ایک صوبے کی پولیس کا دوسرے پر سرکاری وسائل سے حملہ قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے اور یہ احتجاج کی بجائے مسلح دہشت گردی ہے۔

ادھر سفارتی حلقوں نے بھی پی ٹی آئی کے طرزِ عمل پر ناخوشی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اسے پاکستان کے اندرونی معاملات قرار دیا ہے۔ اقتصادی، سیاسی اور سماجی مبصرین نے پی ٹی آئی کے پرتشدد احتجاج، پولیس اہلکاروں پر حملوں اور سفارتی سطح پر پاکستان کا تشخص مجروح کرنے کی کوششوں پر افسوس کا اظہار کیا۔

سیاسی مبصر میاں سیف الرحمن کا کہنا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو آئین کے تحت پُر امن احتجاج کا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حق حاصل ہے۔ لیکن جو صورتحال بن چکی ہے اور خاص طور پر ایسے موقع پر جب بیرونی وفود یا اہم شخصیات پاکستان کے دورے پر ہوں تو یہ اقدامات سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ جن سے دارالحکومت پر چڑھائی کی جائے یا اسے سیل کیا جائے۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک محمد احمد خان کا کہنا ہے کہ مقامی اور عالمی سطح پر پی ٹی آئی کا احتجاج ملکی وقار پر سوالیہ نشان ہے۔

پی ٹی آئی نے ملکی وحدت اور شہریوں سے ان کی آزادی کا تصور تک چھین لیا ہے۔ در انداز و حملہ آوروں کی طرح اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کی جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما عبدالقادر شاہین نے تحریک انصاف کی جانب سے ملک میں بدامنی اور افراتفری پھیلانے کی مہم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی غیر ذمہ دارانہ سیاست اور انتشاری ایجنڈا نہ صرف داخلی امن و امان کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بلکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت، سفارتکاری اور عوامی فلاح و بہبود پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مظاہروں کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، اداروں کے خلاف بیانیہ اور عوام کو اکسانے جیسے اقدامات نے قومی یکجہتی کو شدید متاثر کیا ہے۔ تحریک انصاف نے غیر ملکی تعلقات کو نقصان پہنچانے کیلئے جھوٹے بیانیے اور پراپیگنڈے کا سہارا لیا۔ جس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابیوں کو دھچکا لگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔