محمد اطہر فاروقی:
شوگر ٹائپ ٹو کو کنٹرول کرنے کیلیے سرجری کے رجحان میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ کراچی میں شوگر ٹائپ ٹو اور موٹاپے کیلئے سرجری کرکے معدے کے منہ کو چھوٹا اور معدے کے حصے کو کاٹا جاتا ہے۔ سرجری کے بعد سرجن دعویٰ کرتے ہیں کہ شوگر ٹائپ ٹو ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ شوگر کے ماہرین کے بقول سرجری کرنے والے افراد میں مختلف وٹامنز کی کمی ہو جاتی ہے۔
اکثر و بیشتر زندگی بھر انہیں وٹامن کی دوا کھانی پڑتی ہے۔ ٹائپ ٹو شوگر میں مبتلا ہر فرد کی سرجری لازمی نہیں۔ عموما موٹاپے کا شکار افراد کو ڈاکٹرز کی تجویر کے بعد ہی سرجری کرانی چاہیے۔ سرجری کے بعد بھی کبھی کبھار شوگر کی دوا لی جاتی ہے۔ یومیہ 5 سو سے 7 سو کیلریز حاصل کرنے اور ڈائٹ سے بھی شوگر ٹائپ ٹو پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کراچی کے نجی اسپتالوں میں 8 سے 10 لاکھ روپے شوگر سرجری کی لاگت ہے۔ جناح اسپتال میں مخصوص افراد کی مفت روبوٹک سرجری کی جا چکی ہے۔
شہر کے بڑے نجی اسپتالوں میں شوگر سرجری کی جا رہی ہے۔ جس میں معدے کے حصے کو کاٹا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر فی الحال جناح اسپتال سرجری کر رہا ہے۔ حال ہی میں جناح اسپتال کراچی میں ذیابیطس اور موٹاپے کے شکار افراد کی روبوٹک سرجری کی گئی۔ سرجری کے ذریعے خاتون کا معدہ چھوٹا کرکے ذیابیطس کا مرض ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور ہاضمے کا نظام تیز کرنے کیلئے بڑی آنت بھی چھوٹی کردی گئی۔ ذیابیطس سے متاثرہ 45 سالہ خاتون کا وزن 140 کلو ہے۔ سرجری کے بعد وزن کم ہوگا اور اس کے ذریعے ذیابیطس بھی ختم ہونے کے امکانات ہیں۔ جناح اسپتال کے سربراہ پروفیسر شاہد رسول کا دعویٰ ہے کہ روبوٹک سرجری کے بعد مریضوں کو ذیابیطس کی ادویات اور انسولین کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
’’امت‘‘ نے اس حوالے سے شوگر کے ماہرین سے بات کی تو ذیابطیس کے ماہر ڈاکٹر زمان شیخ نے بتایا کہ شوگر سرجری کے فائدے ضرور ہیں۔ لیکن یہ زیادہ فائدہ ایسے افراد کو دیتی ہے جو موٹاپے کا شکار ہوں۔ اصل میں شوگر کنٹرول کرنے کے محض 2 طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ شوگر ٹائپ ٹو کے شکار افراد یومیہ 5 سو سے 8 سو کیلریز لیں۔ جبکہ ایک عام آدمی یومیہ 18 سو سے 2 ہزار کیلریز کھاتا ہے۔ یہ ڈائٹ مشکل ہے۔ لیکن ناممکن نہیں۔ اس طریقے سے شوگر کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
دوسرا طریقہ شوگر سرجری ہے۔ جس میں موٹے آدمی کے معدے کا حصہ کاٹا جاتا ہے۔ جس کے بعد اس کی شوگر بہتر ہو جاتی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا ’’شوگر سرجری کے زیادہ نقصان دہ اثرات نہیں۔ البتہ یہ لازم ہے کہ ایسے افراد میں وٹامنز کم ہوجاتے ہیں۔ جس کیلئے اکثر و بیشتر تاحیات وٹامن کی دوا لینی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں‘‘۔ ڈاکٹر زمان شیخ نے کا کہنا تھا ’’جس شخص کو شوگر ٹائپ ٹو ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی شوگر سرجری کی جائے۔ البتہ سرجری کی تجویز بھی مریض کا متعلقہ ڈاکٹرز کی تجویز کرے گا۔ کیونکہ شوگر سرجری بھی ایسے افراد کی ہوتی ہے جو موٹاپے کا بھی شکار ہوں۔ کوئی ایسا شخص جو موٹاپے کا شکار نہیں اور اسے ٹائپ ٹو ذیابیطس ہے تو اس کو شوگر آپریشن نہیں کروانا چاہیے۔ اگر ضرورت ہو تو بھی اپنے متعلقہ شوگر کے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں‘‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی میں شوگر سرجری آج کل عام ہے۔ جو تقریبا تمام بڑے نجی اسپتالوں میں کی جاتی ہے اور جس کی لاگت ایک اندازے کے مطابق 8 سے 10 لاکھ روپے ہے۔ جو کوئی غریب شخص نہیں کروا سکتا۔ عباسی شہید اسپتال کے ذیابیطس کے ڈاکٹر محسن عثمانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’یہ سرجری اصل میں موٹاپا کم کرنے کیلئے کی جاتی ہے۔ البتہ ایسے افراد جو موٹاپے کا شکار ہو اور ساتھ ہی اسے ٹائپ ٹو شوگر ہو تو اس کی سرجری کی جاتی ہے۔ لیکن یہ سرجری بھی تیسرے اسٹیج پر کی جاتی ہے۔
پہلے اسٹیج پر دوا، اس کے بعد انسولین اور اگر ضرورت پڑے تو سرجری کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا ’’میں ایسے دو افراد کو جانتا ہوں جن کی سرجری ہوئی۔ البتہ انہوں نے یہ سرجری پاکستان سے باہر کروائی تھی۔ جس کی بعد ان کی شوگر بالکل ختم نہیں ہوئی۔ وہ کبھی کبھار شوگر کی دوا کا استعمال کرتے تھے‘‘۔ ایک سوال پر ڈاکٹر محسن عثمانی نے کہا ’’ہم نے میڈیکل میں پڑھا تھا کہ، انسانی جسم کے کسی عضو کو کم کیا جائے تو اس سے جسم میں مختلف قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ محض کتابی باتیں ہیں۔ اگر پریکٹیکل بات کی جائے تو میں محض دو افراد سے یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ سرجری کتنی کار آمد ہے اور اس کے کیا سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں‘‘۔