امت رپورٹ:
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہم جنس پرست خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل کی جانب سے عمران خان کے حق میں کئے جانے والے ٹویٹس (ایکس پوسٹ) پر پی ٹی آئی خوشی کے شادیانے بجارہی ہے اور اس کی یہ امید بڑھ گئی ہے کہ جنوری میں ٹرمپ بطور امریکی صدر حلف اٹھانے کے فوری بعد پہلا کام عمران خان کو جیل سے باہر نکالنے کا کریں گے۔ تاہم حکومتی اور دیگر ذرائع سے اس حوالے سے جو بات ہوئی ہے، اس کے مطابق پی ٹی آئی کی یہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ یوں عمران خان کے حق میں رچرڈ گرینل کے ٹویٹس رائیگاں جائیں گے۔
واضح رہے کہ عمران خان کی رہائی کے حق میں ٹویٹس کرنے والے ہم جنس پرست رچرڈ گرینل کو نومنتخاب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنا خصوصی ایلچی برائے خصوصی مشنز مقرر کیا ہے۔ وہ ٹرمپ کی قریبی ساتھی اور نیشنل انٹیلی جنس کے سابق ڈائریکٹر بھی رہے ہیں۔ رچرڈ گرینل ایک متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں اور ہم جنس پرستوں کے زبردست حامی ہیں۔ ماضی میں خواتین سے متعلق ان کے اخلاق باختہ ٹویٹس اور ہم جنس پرستی کی حمایت میں بیانات منظر عام پر آتے رہے ہیں۔
چھبیس نومبر کو ایکس پر رچرڈ گرینل نے پوسٹ کی تھی ’’عمران خان کو رہا کیا جائے۔‘‘ اس کے بعد پیر کے روز ایک بار پھر رچرڈ گرینل نے اس نوعیت کی پوسٹ کی۔ حتیٰ کہ انہوں نے عمران خان کو ٹرمپ جیسا لیڈر قرار دے دیا۔ اس کے بعد سے پی ٹی آئی اور اس کے حامی یوٹیوبرز نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی بعض یوٹیوبرز تو ایسا نقشہ کھینچ رہے ہیں کہ جیسے جنوری میں ٹرمپ حلف اٹھانے کے فوری بعد اپنے خصوصی ایلچی کو ہیلی کاپٹر میں بٹھاکر سیدھا اڈیالہ جیل بھیجیں گے ، جو عمران کو واشنگٹن لے آئیں گے۔
پھر ٹرمپ کے ساتھ چائے کی میز پر پاکستانی سیاست کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ جب یہ طے ہوجائے گا کہ عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم بنایا جارہا ہے تو انہیں امریکی طیارے میں بٹھاکر سیدھا قومی اسمبلی پہنچایا جائے گا، جہاں وہ ایک بار پھر پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھائیں گے۔ اس کے بعد ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی اور سب مل کر ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگیں گے۔
تاہم پی ٹی آئی اور اس کے سپورٹرز کے اس حسین ترین سہانے خواب کے برعکس حقائق مختلف ہیں۔ حکومتی اور دیگر ذرائع کے بقول اس بات کے امکانات ایک فیصد بھی نہیں کہ ٹرمپ یا ان کے ایلچی کی فرمائش پر عمران خان جیل سے باہر آجائیں گے۔ اس کا فیصلہ ملک کی عدالتوں نے کرنا ہے۔ ان ذرائع کے بقول ماضی میں بہت سی مثالیں ہیں، جب ایسے مطالبات کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ دیا گیا، جن سے امریکہ کا براہ راست مفاد وابستہ تھا۔ لیکن پھر بھی واشنگٹن تمام تر زور لگانے کے باوجود اپنی بات نہیں منواسکا۔ اس کے برعکس عمران خان کا قصہ تو پھر بھی سراسر پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ان کے جیل میں رہنے سے براہ راست امریکی مفادات متاثر نہیں ہوتے۔ لہٰذا ایسا ممکن نہیں کہ امریکہ ، بانی تحریک کی رہائی کو لے کر اس حد تک جائے کہ ریاست سے تعلقات خراب کرلے۔
اس سارے معاملے پر ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا تھا کہ رچرڈ گرینل کی ایکس پوسٹ محض سیاسی ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ امریکی الیکشن میں چونکہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے ٹرمپ کے لئے مہم چلائی۔ ان کا ساتھ دیا۔ اب اس کے جواب میں نومنتخب امریکی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کا کچھ تو دل رکھنا ہے۔ لہٰذا انہیں خوش کرنے کے لئے بیانات آتے رہیں گے۔ رچرڈ گرینل کی پوسٹیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جائے گا۔
آصف ہارون کے بقول دراصل پہلے کانگریس سمیت امریکی ایوانوں میں بھارتی لابی بالخصوص پاکستان مخالف صہیونی ارکان کے ساتھ رابطے میں تھی۔ اب یہ ذمہ داری پی ٹی آئی نے لے لی ہے، جنہیں پی ٹی آئی کے امریکہ میں بیٹھے لوگ استعمال کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ رچرڈ گرینل کی پوسٹوں کی شکل میں ایک نیا منجن ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ دھرنوں، ریلیوں، لاشوں ، سول نافرمانی کی سیاست سمیت دیگر تمام منجن بک نہیں رہے ہیں۔ ایسے میں رچرڈ گرینل کے ٹویٹس ان کی امیدوں کا نیا مرکز بن گئے ہیں تاکہ ناکامیوں کے زخم پر مرہم رکھا جاسکے۔
ایک سوال کے جواب میں آصف ہارون کا کہنا تھا ’’اول تو عمران خان کی رہائی کے لئے امریکہ کے براہ راست دبائو کا امکان نہیں۔ تاہم اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو اسے خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں ہیں، جب پاکستان نے کسی بات پر اسٹینڈ لے لیا تو پھر واشنگٹن کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ مثلاً دوہزار گیارہ میں صلالہ چیک پوسٹوں پر حملے کے بعد نومبر سے جولائی دوہزار بارہ یعنی آٹھ ماہ تک ہم نے امریکہ کو ہر معاملے میں کٹ آف کردیا تھا۔ یہاں تک کہ افغانستان میں ان کی سپلائی لائن تک بند کردی تھی۔ ٹریننگ اور کورسز کے تمام معاملات بالائے طاق رکھ دیے گئے تھے۔ تمام شیڈول وزٹ روک دیے گئے تھے۔ تمام ملٹری تعلقات منقطع کردیئے گئے تھے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ آخر کار امریکہ کو معافی مانگنی پڑی تھی، تب جاکر معاملات بحال ہوئے تھے۔
اسی طرح شکیل آفریدی کو رہا کرانے کے لئے اب تک امریکہ کس قدر زور لگاچکا ہے۔ کیا اسے کامیابی مل سکی ہے؟ اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں۔ قصہ مختصر پاکستان اگر کسی بھی امریکی مطالبے یا اصرار کو رد کرنا چاہے تو اس پر مضبوط اسٹینڈ لے سکتا ہے۔ عمران خان تو پھر بھی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس سے امریکہ کا براہ راست مفاد وابستہ نہیں۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان کی رہائی کو لے کر امریکہ اس حد تک جائے کہ اسے انکار کی سبکی اٹھانی پڑے۔ بانی پی ٹی آئی امریکہ کا ایک کارتوس یا اثاثہ ضرور تھا۔ اس کے لئے وہ جو کچھ کرسکتے تھے، وہ کیا، لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ رچرڈ گرینل کی پوسٹوں یا حمایت کے نتیجے میں بھی عمران خان کی رہائی کا ایک فیصد امکان بھی نہیں۔‘‘
ادھر حکومت پاکستان نے پہلے ہی ٹرمپ کے ایلچی کے عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے رچرڈ گرینل کی پوسٹوں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مختلف شخصیات کی اپنی آرا ہوتی ہیں، وہ نہیں سمجھتے کہ رچرڈ گرینل کی ایکس پوسٹ کسی بھی طرح سے بامعنی ہوسکتی ہیں۔