نمائندہ امت :
سندھ کے تقریباً ایک کروڑ سیلاب متاثرین پانچویں عید بھی کھلے آسمان تلے منائیں گے۔ متاثرین کے لئے جنوری 2023ء میں 21 لاکھ گھر تعمیر کرنے کے شروع کئے گئے پروجیکٹ کے تحت ابھی تک صرف چار لاکھ گھر تعمیر ہوسکے ہیں۔ مذکورہ پروجیکٹ کے لئے مطلوبہ فنڈنگ میں سے تقریباً 25 فیصد فنڈنگ کا بندوبست نہ ہونے کے باعث حکومت سندھ نے چھ لاکھ گھر کم تعمیر کرنے کے لئے منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ جو چار لاکھ گھر تعمیر ہوچکے ہیں ان میں سے ایک گھر بھی ایسا نہیں جو مکمل طور پر صرف حکومت کی فنڈنگ سے تعمیر ہوا ہو۔ حکومت جس کو گھر کا نام دے رہی ہے وہ صرف ایک کمرہ ہے۔ جس میں واش روم کی سہولت بھی شامل نہیں ہے۔ سب سے زیادہ وہ متاثرین عذاب میں ہیں جن کے گھر اپنی زمین یا سرکاری زمین کے بجائے دیگر افراد کی نجی زمین پر تعمیر تھے۔
اگست 2022ء میں ملک بھر میں ہونے والی شدید بارشوں سے سب سے زیادہ صوبہ سندھ متاثر ہوا تھا۔ بارشوں میں سندھ کے تمام 30 اضلاع متاثر ہوئے تھے۔ جن میں سے ماسوائے کراچی کے چھ اضلاع میں سے باقی 24 اضلاع میں تباہی پھیل گئی تھی۔ اس تباہی کے نتیجے میں 21 لاکھ سے زیادہ گھر متاثر ہوئے تھے۔ تاہم حکومت کے سروے میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ سندھ میں تقریباً 21 لاکھ کچے پکے مکانات متاثر ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کچے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔ اور بعض گھر جزوی طور پر متاثر ہوئے تھے۔ حکومت سندھ نے اعلان کیا تھا کہ تمام متاثرین کو پکے مکانات تعمیر کرکے دیں گے۔
اس سلسلے میں اکتوبر 2022ء میں سندھ کی پیپلز ہائوسنگ فار فلڈ ایفیکٹیز پروجیکٹ کی تیاری شروع کی گئی۔ مذکورہ پروجیکٹ کا آغاز جنوری 2023ء سے شروع کیا گیا۔ اور حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ جون 2027ء تک تمام 21 لاکھ گھروں کی تعمیر سے پروجیکٹ مکمل کیا جائے گا۔ مذکورہ پروجیکٹ کے لئے یہ طریقہ کار طے ہوا تھا کہ جن افراد کے گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں انہیں حکومت کی جانب سے چار اقساط میں تین، تین لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ جس سے متعلقہ گھرانہ خود ایک کمرے کا گھر تعمیر کریں گے۔ پروجیکٹ کے تحت متاثرین کو پہلی قسط کے طور پر 75 ہزار روپے دیئے جاتے ہیں۔
کمرے کی تعمیر ڈی پی سی تک ہوجانے کے بعد دوسری قسط کے طور پر ایک لاکھ روپیہ دیا جاتا ہے، اس طرح جب تعمیراتی کام چھت تک پہنچ جاتا ہے تو مانیٹرنگ کے بعد چھت ڈالنے کے لئے متاثرین کو ایک لاکھ روپے ادا کیا جاتا ہے۔ اس طرح چھت ڈلنے کے بعد انہیں رینوویشن وغیرہ کے لئے 25 ہزار روپے کی قسط دی جاتی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ تقریباً 26 ماہ کے اندر تقریباً چار لاکھ گھر (کمرے) مکمل طور پر تعمیر ہوچکے ہیں اور دس لاکھ افراد کو پہلی قسط اور تقریباً 8 لاکھ افراد کو دوسری قسط کی رقم دی گئی ہے۔
حکومت اب تک مکمل طور پر چار لاکھ گھر تعمیر ہونے کا جو دعویٰ کر رہی ہے ان میں سے ایک بھی گھر ایسا نہیں جو صرف حکومت کی جانب سے کی جانے والی فنڈنگ سے تعمیر ہوسکا ہو کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث تعمیراتی میٹریل کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جس کے باعث متاثرین کا ایک کمرہ بھی پانچ سے چھ لاکھ لاگت سے کم تعمیر نہیں ہورہا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف وہ متاثرین ہی اپنے لئے ایک کمرہ تعمیر کرسکتے ہیں جن کے پاس اپنی جیب سے دو سے تین لاکھ روپے خرچ کرنے کی سکت ہو۔
ذرائع نے بتایا کہ گھر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں واش روم، کچن کی سہولت ہونے کے ساتھ چار دیواری بھی ہو لیکن اس گھر میں مذکورہ سہولت نہیں۔ یوں سمجھیں کہ بغیر چار دیواری کا ایک کمرہ تعمیر ہوتا ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سرکاری ریکارڈ میں اب تک چار لاکھ گھروں کی جو مکمل تعمیر ظاہر کی جارہی ہے ان میں سے کئی گھر ایسے ہیں جن کی چھت تعمیر نہیں ہوسکی ہے۔ ان میں وہ متاثرین شامل ہیں جن کے پاس اپنی رقم نہیں ہے۔ لیکن حکومت تین لاکھ روپے ادا کرنے کے بعد اپنے ریکارڈ میں ان گھروں کی مکمل تعمیر ظاہر کر رہی ہے۔
جب مذکورہ پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا تو اس کی مجموعی لاگت کا تخمینہ تقریباً دو ارب 20 کروڑ ڈالر لگایا گیا تھا۔ لیکن خود حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ کے لئے تقریباً ایک ارب 66 کروڑ ڈالر کا بندوبست ہو سکا ہے۔ جس کے لئے 50 کروڑ ڈالر عالمی بینک ، 40 کروڑ ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک ، 20 کروڑ ڈالر اسلامک بینک ، 10 کروڑ ڈالر یورپین انوسٹمنٹ بینک نے فنڈنگ کی ہے۔ جبکہ 50 ارب روپے حکومت سندھ نے اپنے خزانے سے دیئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو ارب 20 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 54 کروڑ ڈالر یعنی تقریباً 24.55 فیصد فنڈنگ موجود ہی نہیں ہے۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی تناسب سے کم گھر تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اب 21 لاکھ کے بجائے تقریباً 15 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لئے صوبائی حکومت فنڈنگ کرے گی۔ جس کے لئے اب یہ بہانہ بھی تلاش کیا گیا ہے کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ وہ پکے گھر جو جزوی طور پر متاثر ہوئے تھے ، ان کے لئے سرکاری فنڈنگ نہیں ہوگی۔ جس کے لئے یہ جواز بنایا گیا ہے کہ جن افراد پکے گھر تعمیر کرائے تھے وہ جزوی طور پر متاثر ہونے والے گھر خود ٹھیک کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ جزوی طور پر متاثر ہونے والے فی گھر کے لئے 50 ہزار روپے فنڈنگ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ حکومت سندھ نے مذکورہ پروجیکٹ کے متعلق یہ اعلان بھی کیا تھا کہ مذکورہ گھروں کے لئے استعمال ہونے والی زمین متعلقہ متاثرین کو مالکانہ حقوق کے ساتھ دی جائے گی۔ ایسے متاثرین جن کے گھر سرکاری زمین پر تعمیر ہیں، انہیں مالکانہ حقوق دیئے جائیں گے اور وہ افراد جن کی اپنی نجی زمین پر گھر تعمیر تھے ، ان کے پاس پہلے سے مالکانہ حقوق ہیں۔
واضح رہے کہ زمین کے مالکانہ حقوق کے متعلق اعلان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خود کیا تھا۔ پروجیکٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جو گھر تباہ ہوئے تھے، ان میں سے تقریباً ساڑھے 4 لاکھ گھر ایسے ہیں جو دیگر افراد کی نجی زمین پر تعمیر ہوئے تھے۔ ان گھروں کی تعمیر اس صورت میں ہوگی جب متعلقہ لینڈ لارڈز ، ٹیننسی معاہدے کرکے تقریباً 20 سال کے لئے کرائے پر وہ گھر ان کے حوالے کریں۔ بصورت دیگر ایسی متاثرین کے گھر تعمیر نہیں ہوں گے۔ جہاں تک لینڈ لارڈز اور متاثرین کے درمیان کرائے کے متعلق معاہدے کی بات ہے تو بیشتر افراد اپنی زمین کے متعلق ایسا معاہدہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اس طرح سب سے زیادہ عذاب میں وہ متاثرین ہیں جن کے گھر دیگر افراد کی نجی زمین پر تعمیر تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فنڈنگ وغیرہ کا بندوبست نہ ہونے کے باعث اصولی طور پر ان ساڑھے چار لاکھ گھروں کی تعمیر کو بھی پروجیکٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حکومت نے جب یہ پروجیکٹ شروع کیا تھا اس وقت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 220 روپے تھی، جو اب بڑھ کر 280 روپے ہوگئی ہے۔ حکومت کو پروجیکٹ کے لئے فنڈنگ ڈالرز میں ہورہی ہے۔ پروجیکٹ کے لئے دوارب 20 کروڑ ڈالر کا جو تخمینہ لگایا گیا تھا ، پروجیکٹ شروع ہونے کے وقت روپے میں اس کی قیمت 484 ارب روپے بن رہی تھی، لیکن روپے کی بے قدری کے باعث وہ رقم 132 ارب روپے بڑھ کر 616 ارب روپے ہوچکی ہے۔ روپے کی بے قدری کے باعث مہنگائی بڑھنے کی جہاں تک بات ہے تو 132 ارب روپے کی اضافی رقم بھی متعلقہ متاثرین کو اگر ادا کی جائے تو فی کس متاثرین کو 3 لاکھ کے بجائے ساڑھے تین لاکھ سے 3 لاکھ 60 ہزار روپے ملنے چاہئیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا۔
حکومت سندھ آئے دن یہ اعلان کرتی رہتی ہے کہ مذکورہ ہائوسنگ کا پروجیکٹ دنیا کا سب سے بڑا ہائوسنگ تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ جس سے تقریباً ایک کروڑ 26 لاکھ افراد کے لئے 21 لاکھ گھر تعمیر ہوں گے اور حکومت یہ دلیل بھی پیش کرتی ہے کہ ایک کروڑ 26لاکھ کی آبادی کو اگر دیکھا جائے تو 150 ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی اس سے کم ہے۔ اس اعتبار سے فی گھر اوسطاً 6 افراد پر مشتمل ہے۔ حکومتی دعوے کے مطابق اب تک چار لاکھ گھر اگر تعمیر ہوچکے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک صرف 22 لاکھ افراد کو چھت مل سکتی ہے۔ اس طرح اب تک تقریباً ایک کروڑ 2 لاکھ افراد چھت سے محروم ہیں۔ اگست 2022ء سے لے کر مذکورہ متاثرین دو عیدالفطر اور دو عید الاضحیٰ کھلے آسمان تلے مناچکے ہیں۔ اور اب پانچویں بار بھی ایسے متاثرین کھلے آسمان تلے عید منائیں گے۔