علمائے کرام نے ہالینڈ سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کردیا

0

مرزا عبدالقدوس/ عظمت علی رحمانی/ وجیہ احمد صدیقی
جید علمائے کرام اور دینی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے گستاخانہ خاکوں کے عالمی مقابلے رکوانے کیلئے نگران حکومت کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے ٹھوس اور سخت ردعمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اگر ہالینڈ کی حکومت امت مسلمہ کے جذبات کا احساس نہیں کرتی تو حکومت پاکستان ہالینڈ سے سفارتی تعلقات ختم کر دے۔ ہالینڈ کے سفیر کو ملک بدر کر کے اس کا سفارتخانہ بند کردیا جائے۔ مفتیان عظام، علمائے کرام اور دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے مطابق ’’ہماری جان، مال، عزت و ناموس اور اولاد سب کچھ حرمت رسول کے تحفظ پر قربان ہے۔ اس سلسلے میں پر امن احتجاج یا جو بھی دوسرے معروف طریقے ہیں، بروئے کار لائیں گے اور اپنی حکومت کو مجبور کریں گے کہ ہالینڈ یا اس کے موقف کی حمایت کرنے والے ممالک سے تعلقات ختم کیے جائیں۔ کیونکہ ہماری غیرت ایمانی کا تقاضا ہے کہ رواداری اور آزادی کے نام پر ہم اس طرح کے حساس معاملات کو کسی صورت نظر نہیں کر سکتے‘‘۔ دوسری جانب پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس بات سے ہی لاعلم ہیں کہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کا کوئی عالمی مقابلہ ہو رہا ہے۔ تاہم جب ان پارٹیوں کے رہنمائوں سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے ہالینڈ کے اقدام کی پرزور مذمت ضرور کی۔
متحدہ مجلس عمل کے الیکشن سیل کے انچارج ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان میں عوام کے جذبات اس حوالے سے شدید ہیں۔ ہم ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے اس کی شدید مذمت کر چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کا ہالینڈ کے سفیر اور یورپی یونین کے سفیر کو طلب کرنا کافی نہیں۔ اس سلسے میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سفارتی محاذ پر ہمارے سفارت کاروں کو سرگرم ہونا چاہیے۔ اگر اس کے باوجود یہ گستاخانہ مقابلے منسوخ نہیں کئے جائیں تو ہالینڈ سے سفارتی تعلقات ختم کر دیئے جائیں‘‘۔ ایک سوال پر ڈاکٹر فرید پراچہ نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل اس بارے میں بھرپور احتجاج کرے گی اور پر امن مظاہروں کے علاوہ عالمی توجہ حاصل کرنے اور حکومت پاکستان کو ٹھوس اقدامات پر مجبور کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے کے تمام معروف طریقے استعمال کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کے صدر طیب اردگان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد جیسی بڑی اسلامی دنیا کی شخصیات اور سربراہان حکومت کو بھی ایم ایم اے قیادت خطوط تحریر کر کے اپنے جذبات ان تک پہنچائے گی۔
تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی سیکریٹری تشر و اشاعت پیر محمد اعجاز اشرفی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’نگران حکومت نے ہالینڈ اور یورپی یونین کے سفیروں کو بلا کر جو احتجاجی مراسلہ دیا ہے، وہ احسن اقدام ہے لیکن ناکافی ہے۔ اس انتہائی گستاخانہ مقابلے کو ختم کرنے کا ہالینڈ اعلان نہیں کرتا تو ہالینڈ کے سفیر کو واپس بھجوانا چاہیے اور اپنے سفیر کو واپس بلا لینا چاہیے۔ یہ فیصلہ فوری طور پر کرنا چاہیے تاکہ پوری دنیا کو علم ہو کہ پاکستان میں نبی کریمؐ کے شیدائی رہتے ہیں۔ ہماری جان مال، اولاد و عزت سب کچھ نبی کریمؐ کی ناموس اور اس کے تحفظ پر قربان ہے۔ یہ انتہائی اہم اور حساس مسئلہ ہے جس پر چھوٹی سی کوتاہی اور سستی بھی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کا اس حوالے سے موقف واضح اور دوٹوک ہے۔ اس مقابلے کی منسوخی کا اعلان کرانے کے لئے جو بھی ممکن ہوگا، کیا جائے گا اور کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ اسلام دشمن قوتیں مذہبی آزادی، روشن خیالی اور رواداری کے نام پر جو کھیل کھیلنا چاہتی ہیں وہ ناقابل برداشت ہے۔ ایک سوال پر پیر اعجاز اشرفی کا کہنا تھا کہ ’’پورے ملک میں پر امن احتجاج ہو، اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال ہو تاکہ دنیا بھر کے ممالک کی توجہ حاصل کرکے ہالینڈ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر دباؤ ڈال کر ان مقابلوں کو منسوخ کرایا جائے۔ یہ سارے آپشن ہمارے سامنے کھلے ہیں۔ تحفظ ناموس رسالت ہماری زندگیوں کا مقصد ہے۔ حکومت پاکستان سے بھی ہماری درخواست ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے کسی صورت غفلت کا مظاہرہ نہ کرے۔ اس معاملے پر او آئی سی کو بھی اپنا کردار اد اکرنا چاہئے۔ صرف ہالینڈ ہی نہیں پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی کوئی اس قسم کی سوچ رکھتا ہے، اس کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ یہ بات طے ہے کہ احتجاجی مظاہروں سے یہ معاملہ رکنے والا نہیں۔ اس کیلئے ہالینڈ کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ اگر پھر بھی ہالینڈ باز نہیں آتا تو ہماری فورسز کی جانب سے جہاد کا اعلان ہونا چاہئے‘‘۔
ملی مسلم لیگ کے ترجمان تابش قیوم نے اس حساس مسئلے پر ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ حرمت رسول کا مسئلہ ہے۔ حکومت پاکستان کا چاہئے کہ اسلامی ممالک سے رابطے کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس مسئلے کو اٹھایا جائے۔ ہالینڈ سے سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں۔ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے۔ دیگر مذہبی سیاسی اور سماجی جماعتوں سے بھی ہم اس سلسلے میں رابطے کریں گے۔ پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے جس کیلئے مشاورت کر رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس طرح کے گستاخانہ مقابلے پوری امت مسلمہ کے جذبات کو بھڑکانے کے علاوہ انسانیت کے بھی منافی ہیں۔ آقائے دو جہاںؐ کی ناموس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور پر امن احتجاج کرکے اسلام دشمن قوتوں کے اس حملے کو بھی ناکام بنائیں گے۔ ہم نے لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہ کرنے کے لیے پہلے ہی سے کام شروع کر دیا ہے۔ دیگر جماعتوں سے رابطے کریں گے۔ عالمی سطح پر عوامی دباؤ کے ذریعے اس مسئلے کو اٹھانے کے لئے جس حد تک ممکن ہوا، ہم اپنی پوری قوت لگا دیں گے۔ ہمارے پرامن مظاہروں اور احتجاج کو بھی بعض عناصر غلط رنگ دیتے ہیں۔ ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے تمام جماعتوں کا موقف ایک ہے اور اس میں سب کے جذبات ایک ہیں۔ حکومت پاکستان کو امت مسلمہ کا مسئلہ سمجھتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک سے بھی رابطہ کرنا چاہیے اور اسلامی ممالک کو عالمی فورمز پر یکساں موقف اپنا کر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے‘‘۔
جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما صاحبزادہ اویس نورانی کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس معاملے پر سخت احتجاج کرنا چاہئے۔ جب عالمی سطح پر دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور تمام مذاہب کے مابین ماحول کو پر امن بنانے کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں تو ایسے میں اس طرح کے حالات پیدا کرنے کا کیا مقصد ہے اور یہ کہاں کا انصاف ہے۔ ہالینڈ اس طرح کا کام کر کے خود کو دہشت گردی کی آگ میں لپیٹنا چاہتا ہے، جس پر عالمی اداروں کو سوچنا ہو گا اور پاکستان کی حکومت کو فی الفور ہالینڈ سے سفارتی بائیکاٹ کرنا ہو گا۔
مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا کہنا ہے کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اس سلسلے میں 13 جولائی سے ہر جمعہ کو احتجاج کر رہی ہے اور آئندہ بھی کیا جاتا رہے گا۔ مگر اس پر حکومت کو ہی اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ علمائے کرام ہی ناموس رسالت کے پہرے دار ہیں، لہذا عوام کو انہی علمائے کرام کو 25 جولائی کو ایوانوں میں بھیجنا چاہیے، تاکہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکیں۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما اور سرگودھا میں ’خاتم النبین ہارٹ سینٹر‘ کے چیئرمین علامہ حافظ محمد اکرم طوفانی کا کہنا ہے کہ ’’اس معاملے میں ہم جتنا بھی کوشش کریں، حق ادا نہیں کر سکتے۔ ہم 62 اسلامی ممالک میں ایک ارب 62 کروڑ سے زائدمسلمان ہیں۔ مگر ہمارے لئے شرم کی بات ہے، کہ ہمارے ہوتے ہوئے ایسی گستاخانہ سازشیں ہور ہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جیسے ہی گستاخانہ خاکوں کے عالمی مقابلے کا اعلان ہوا تھا، اسی وقت سے ملک بھر میں مظاہرے ہوتے۔ ملک بھر میں ہم اپنے کسی بھی مسئلے پر احتجاج کرتے ہیں۔ مگر اس مسئلے پر اب تک کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا ہے۔ بہرحال ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ہالینڈ کے سفیر کو بلائے اور اس کو ملک بدر کیا جائے، تاکہ وہاں ہمارا سخت پیغام جائے‘‘۔
جمعیت علمائے اسلام (س) کے صوبائی ڈپٹی جنرل سیکریٹری مولانا حماد مدنی کا کہنا ہے کہ ’’ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے ہمیں دو اقدامات کرنے ہوں گے۔ اول یہ کہ ہمیں حضور نبی کریمؐ کے نقش قدم پر ان کی سنتوں پر عمل کرنا ہو گا۔ دوسرے نمبر پر اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کو فعال ہونا چاہئے اور فی الفور اس کا اجلاس بلانا چاہئے، تاکہ ہالینڈ کی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے اور سفارتی سطح پر بھی اس مسئلے کو زیادہ قوت سے اٹھایا جائے‘‘۔
جامعہ اسلامیہ مخزن العلوم کراچی کے صدر اور مجلس علمائے کراچی کے چیئرمین مولانا ڈاکٹر قاسم محمود کا کہنا ہے کہ ’’حکومت پاکستان نے ہالینڈ کے سفیر کو بلاکر، اپنا احتجاج ریکارڈ کراکے اچھا کام کیا ہے۔ تاہم اب حکومت کو چاہئے کہ وہ سفارتی سطح پر مزید موثر احتجاج کرے۔ ہالینڈ کے سفیر کو ملک سے بکال دیا جائے۔ اور ہالینڈ کے ساتھ اس وقت تک سفارتی تعلقات استوار نہ کئے جائیں جب تک وہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا فیصلہ واپس نہیں لیتا۔ اس کے ساتھ پاکستان کے علمائے کرام کو بھی چاہیے کہ وہ بھی سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس پر ایک موقف کے ساتھ باہر نکلیں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکریٹری مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کا کہنا ہے کہ ’’ہالینڈ کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے اعلان کے بعد امت مسلمہ کو متحد ہو کر موثر آواز اٹھانا اور احتجاج کرنا چاہئے۔ اسلامی ممالک کی حکومتوں کو چاہئے کہ او آئی سی کو نمائشی پروگراموں اور اجلاسوں سے آگے بھی کام کرنے پر مجبور کریں۔ عالمی فورم پر آواز اٹھائیں۔ اقوام متحدہ کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ ایسا قانون بنائے، جس میں کسی بھی نبی، مقدس شخصیت کے خلاف کسی بھی قسم کی ہرزہ سرائی کو قابل سزا قرار دیا جائے۔ ہالینڈ کے اس اقدام سے دنیا کا امن بھی متاثر ہو گا۔ دوسری جانب اس طرح کے واقعات سے مزید دوریاں پیدا ہونگی۔ لہذا پاکستان کی حکومت قائدانہ کردار ادا کرے اور دیگر اسلامی ممالک ترکی، سعودی عرب، قطر وغیرہ سے رابطے کئے جائیں اور حل تلاس کیا جائے‘‘۔
اہلسنت والجماعت کے مرکزی رہنما اور حلقہ این اے 238 سے امیدوار علامہ اورنگزیب فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کو چاہئے کہ وہ ہالینڈ کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرے اور احتجاجاً اس کے سفارت خانے کو بند کر دیا جائے۔ عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ہالینڈ کے خلاف عالمی سطح پر اور دیگر سفارتی تعلقات کی بنیاد پر موثر احتجاج کیا جائے۔ کیونکہ اس کے اس عمل سے امن کا عالمی ماحول خراب ہو گا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایک گولی والی دہشت گردی ہوتی ہے اور ایک دہشت گردی گستاخی والی ہوتی ہے۔ لہذا اس دہشت گردی کے خلاف حکومت کو عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات اٹھانا چاہئے‘‘۔
مرکزی جمعیت اہلحدیث کے رہنما اور بلوچستان سے حلقہ برائے پی بی 45 کے امیدوار حافظ ناصرالدین ضامرانی کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کو مضبوط موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی حکومت کو چاہئے کہ صرف ہالینڈ کے سفیر کو بلا کر احتجاج نہیں، بلکہ اسے ملک بدر کیا جائے اور ہالینڈ کا سفارت خانہ بند کیا جائے‘‘۔
وفاق المدارس کے صوبائی ترجمان مولانا طلحہ رحمانی کا کہنا ہے کہ ہالینڈ کی حکومت کے ساتھ کھل کر بات کی جائے کہ وہ یہ اقدام کرکے دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو کسی بھی لحاظ سے اچھا عمل نہیں ہے اور اسے اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
ادھر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اس بات سے لاعلم ہیں کہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کا کوئی عالمی مقابلہ ہو رہا ہے۔ ’’امت‘‘ کے استفسار پر رسمی طور پر نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، کے رہنمائوں نے مختصراً بات چیت کی۔ اپنے بیانات میں انہوں نے کہا کہ ان کے برسرا قتدار آنے کی صورت میں وہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کے اعلان پر عملدرآمد روکنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے اور امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کریں گے۔ ان تینوں بڑی جماعتوں میں سے کسی نے بھی نے اپنے منشور میں ناموس رسالت کے تحفظ کو نہ اپنا مشن بتایا ہے اورنہ ہی کسی بھی پارٹی لیڈر نے اپنے جلسوں میں اس معاملے کو اپنے مشن کے طور پر لیا ہے۔ حالانکہ 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران ہی ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ وہ اس انتہائی گھنائونے مقابلے کو رکوانے کی کوشش کرتے۔
کیونکہ ہالینڈ کی اسلام دشمن سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرز نے ایک بار پھر دنیا کا امن دائو پر لگاتے ہوئے نبی پاک کی شان اقدس کے خلاف خاکوں کی نمائش کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا، جو کہ سراسر توہین رسالت ہے اور مقدس ہستیوں کی توہین سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’پیپلز پارٹی تمام مذاہب کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علمبردار ہے۔ ہم کوئی مذہبی جماعت نہیں ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کے بنیادی اصولوں میں سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ اس ناطے سے رسول اکرم ﷺ کی عزت و عصمت کی حفاظت ہمارا فرض اولین ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ختم نبوت کے تحفظ کی جو ترمیم کرائی، وہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے رسول اکرمؐ کی ناموس اور ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہر دبائو کو مسترد کیا ہے اور اس معاملے پر قادیانیوں کے ساتھ کوئی سودا نہیں کیا۔ ہماری حکومت ان شاء اللہ ان گستاخانہ خاکوں کو رکوانے کے لئے ہر قسم کے سیاسی اور سفارتی دبائو کو استعمال کرے گی۔ ماضی میں بی بی شہید کی حکومت نے بھی اس قسم کے معاملات پر عالمی سطح پر بات کی ہے‘‘۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سید شبلی فراز جو معروف شاعر احمد فراز کے صاحبزادے ہیں، نے ’’امت‘‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں حکومت کے آنے کا انتظار نہیں کر سکتا۔ انتخابات میں چند دن رہ گئے ہیں۔ حکومت کسی کی بھی آئے، میں ان شاء اللہ اس معاملے کو سینیٹ آف پاکستان میں اس طرح اٹھائوں گا کہ کوئی بھی حکومت ہو اس پر واضح ہوجائے گا کہ ہم کسی بھی طرح اپنے نبی کریم ﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم چاہیں گے کہ حکومت پاکستان انٹر نیشنل فورم پر جائے اور انہیں بتائے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف تو اجتماعی بات کرتے ہیں، لیکن اس قسم کے مقابلے شیطانی دہشت گردی ہیں۔ اس کے نتائج مسلم دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت ہوئی تو ہم مغربی ممالک کے سفیروں کو بلا کر ان سے احتجاج کریں گے۔ انہیں بتائیں گے کہ یہ سب کچھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی نہیں، بلکہ یہ کام بھی مذہبی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ میرا اپنی حکومت کو یہ مشورہ ہوگا کہ حکومتی سطح پر ہالینڈ کا اقتصادی بائیکاٹ نہ صرف خود کیا جائے، بلکہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی اس پر مجبور کیا جائے۔ سید شبلی فراز کے جذبات کے برعکس تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے ایسی کوئی خبر نہیں سنی ہے۔ اس کا جواز انہوں نے یہ دیا کہ وہ مانسہرہ ہزارہ میں انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہالینڈ آزاد ملک ہے اور ہم اس پر دبائو نہیں ڈال سکتے۔ انہوں نے الٹا ’’امت‘‘ سے یہ سوال بھی کیا کہ علمائے کرام اس مسئلے پر خاموش کیوں ہیں؟ وہ کیوں بات نہیں کرتے۔
مسلم لیگ (ن) کے ترجمان رہنے والے صدیق الفاروق نے ’’امت‘‘ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’’نون لیگ اور اس کی حکومت اگر اقتدار میں آئی تو اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گی، کیونکہ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر پر یقین رکھتے ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ ہم اس معاملے کو عالمی اداروں کے سامنے لے جائیں گے۔ کیونکہ یہ عالمی ادارے کے اپنے منشور کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ ناموس رسالت ﷺ کے لیے ہم ہالینڈ کے ساتھ سفارتی رشتے بھی توڑ سکتے ہیں‘‘۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More