ماضی کی بدعنوانیاں فاروق ستار کے گلے پڑگئیں

0

امت رپورٹ
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 245 جمشید ٹائون میں متحدہ کے رہنمائوں کی جانب سے کی جانے والی ماضی کی کرپشن حالیہ الیکشن مہم میں فاروق ستار کیلئے پریشانی کا سبب بن گئی۔ ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار جو اس حلقہ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، ان کیلئے علاقہ مکینوں کو دئے گئے ملکیت کے جعلی کاغذات درد سر بن گئے ہیں۔ وفاقی کوارٹر ز میں رہائش پذیر افراد کی اکثریت کو 2007ء کے دوران دو سے تین لاکھ روپے لے کر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نام پر جعلی کاغذات تقسیم کئے گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق جمع ہونے والی رقم ایم کیو ایم رہنمائوں نے آپس میں تقسیم کرلی تھی۔
چند روز پہلے جب ڈاکٹر فاروق ستار اپنی الیکشن مہم کے سلسلے میں مارٹن کوارٹرز میں مکینوں سے ملاقات کیلئے پہنچے تو اس دوران کئی مکین جن میں خواتین بھی شامل تھی، نے ان کو گھیر لیا۔ انہیں کہا گیا کہ وہ جواب دیں کہ پارٹی کے لوگوں نے ان کے ساتھ دھوکہ کیوں کیا اور ان سے لاکھوں روپے لے کر جو جعلی ملکیتی کاغذات دیئے گئے، ان کا کیا ہوگا؟ مکینوں کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم رہنما کس منہ سے ووٹ مانگنے آئے ہیں۔ عمر بھر کی جمع پونجی کے عوض ملکیت کے جعلی سرٹیفکیٹس ان کو دئے گئے تھے، وہ آج ناقابل قبول ہیں اور عدالت بھی ان مکینوں سے سرکاری مکانات خالی کرانے کے احکامات دے چکی ہے جس پر عمل در آمد جاری ہے۔
اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ مکینوں کے ساتھ فراڈ کرنے میں اس وقت کے متحدہ رہنما سید صفوان کے ساتھ ڈاکٹر صغیر بھی ملوث تھے جنہوں نے پارٹی کارکنوں کو نوازنے کے نام پر رقم بٹوری۔ تاہم جب یہ رہنما ایم کیو ایم کو خیرباد کہہ کر پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوئے تو ان کی جانب سے جن مکینوں کو فیڈرل کوارٹرز میں بسایا گیا اور ان سے رقم لے کر جعلی کاغذات دئے گئے، ایم کیو ایم نے انہیں پی ایس پی کا کارکنان کہہ کر مکانوں سے نکالنے کا منصوبہ بنایا، اس طرح سے غریب مکین، پارٹی کی تقسیم پر زیر عتاب آگئے۔
کراچی میں قائم 4000 فیڈرل کوارٹرزکو غیر قانونی قابضین سے واگزار کرانے کے معاملے پر پہلی بار 2008ء میں اس وقت کے وفاقی وزیر برائے ورکس اینڈ ہائوسنگ رحمت اللہ کاکڑ کی جانب سے نوٹس لیا گیا تھا جب کراچی میں سرکاری مکانات پر اصل الاٹیز کے بجائے غیر متعلقہ افرا د کے قبضے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ اس وقت کی جانے والی فوری کارروائی میں اسٹیٹ آفس اسلام آباد کے غلام عباس بلوچ اور جوائنٹ آفیسر کراچی سرور جوہرا کو معطل کردیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر نے اس وقت کراچی میں ان مکانات سے قبضہ واگزار کرانے کے واضح احکاما ت بھی دئے تھے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ برس متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر اور قائمہ کمیٹی برائے ورکس اینڈ ہائوسنگ کے سربراہ مولانا شوکت تھانوی کی جانب سے کی جانے والی کمپلین پر ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل سندھ میں اسٹیٹ آف کراچی کے افسران کے خلاف کرپشن اور غفلت کی تحقیقات شروع کی گئیں۔ انکوائری میں اسٹیٹ آفس کے افسران سے نہ صرف ان مکانات اور ان کے الاٹیز کا اصل ریکارڈ لیا جا رہا ہے بلکہ ان پر قبضے کے حوالے سے اسٹیٹ آفس کے افسران کی ملی بھگت اور کرپشن کے حوالے سے کردار کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔ کراچی میں تقریباً 350 ایکڑ زمین پر مارٹن کوارٹرز، کالٹن کوارٹرز، ٹی این ٹی کالونی کے نام سے جمشید کوارٹر پی آئی بی اور لالو کھیت کے علاوہ ایف سی ایریا میں 4000 سے زائد مکانات قائم ہیں۔ یہ سرکاری کالونیاں 1947ء کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی میں وفاقی سرکاری اداروں کے ملازمین کو رہائش فراہم کرنے کیلئے بنائی گئی تھیں، جن میں اگلی کئی دہائیوں تک وہ سرکاری ملازمین اور ان کے اہل وعیال رہائش پذیر رہے جنہیں یہ مکان الاٹ کئے گئے تھے۔ تاہم بعد ازاں 1990ء اور 2000ء کی دہائیوں میں بیشتر الاٹیز گلشن اقبال، گلستان جوہر اور گلشن معمار کے علاقوں میں قائم ہونے والے نئے ترقیاتی پروجیکٹس اور بستیوں میں شفٹ ہوگئے۔ جبکہ ان کے چھوڑے ہوئے مکانات اسٹامپ پیپرز پر ملبہ ظاہر کرکے 10سے 15 لاکھ روپے میں غیر متعلقہ افراد کو غیر قانونی طریقے سے فروخت کردئے گئے اور یوں آہستہ آہستہ ان آبادیوں میں اکثر مکانات غیر متعلقہ افراد کے قبضے میں آگئے۔ ذرائع کے مطابق اس کام کیلئے بعض اسٹیٹ ایجنٹ مخصوصی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی سرپرستی میں کاروبار کرتے رہے۔ قوانین کی رو سے ان آبایوں میں اضافی دکانیں اور مکانات تعمیر نہیں ہوسکتے تھے۔ جبکہ پہلے سے بنے مکانات پر اضافی منزلیں بنانا بھی ممنوع تھا۔ تاہم یہ تمام غیر قانونی کام ہوتے رہے۔ اس وقت ان کالونیوں کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں پر غیر قانونی دکانوں کی پٹیاں قائم ہیں جنہیں اسٹامپ پیپرز پر 2 سے 4 لاکھ میں ملبہ ظاہر کرکے غیر متعلقہ افراد کو بیچا گیا۔ جبکہ مکانوں کے ساتھ 60 سے 80 گز کے اضافی مکان اور اضافی منزلیں بھی تعمیر ہوچکی ہیں جنہیں 4 سے 8 ہزار روپے ماہانہ کرائے پر دیا گیا ہے اور ہزاروں مکانوں کا کرایہ لینڈ مافیا کے کارندے اور سیاسی جماعت کے کارکن وصول کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق 2013ء میں قائمہ کمیٹی برائے ورکس اینڈ ہائوسنگ کی جانب سے ایک بار پھر قبضہ چھڑانے کیلئے اسٹیٹ آفس کو احکامات جاری کئے گئے تاہم اس کے بعد بھی عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ اسٹیٹ آفس کے بعض افسران کی جانب سے ایف آئی اے کو بتایا گیا کہ رحمت اللہ کاکڑ سے قبل وفاقی وزیر برائے ہائوسنگ رہنے والے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی سید صفوان اللہ اور رکن اسمبلی سید صغیر احمد کی جانب سے اسٹیٹ آفس کے افسران کو معاملے سے دور رہنے کی ہدایات دی گئیں تھیں۔ ذرائع کے مطابق اب دوبارہ متحدہ کے سینیٹر کی جانب سے ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی کے لئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ تاہم اس کیلئے جو فہرست دی گئی ہے وہ صرف ان افراد کی ہے جو ڈاکٹر صغیر احمد کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کو خیر باد کہہ کر پاکستان سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور انہیں اس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ ’’امت‘‘ کو مارٹن کوارٹرز کے رہائشیوں نے بتایا کہ معاملہ عدالت میں ہے لیکن انہیں افسوس اس بات پر ہے کہ ماضی میں ان کے ساتھ اپنے ہی لوگوں نے دھوکہ کیا۔ اصل حقائق بتانے کے بجائے لاعلم رکھ صرف اپنے ذاتی فائدے کیلئے کارکنوں اور غریب مکینوں کا استعمال کیا جاتا رہا۔ کچھ مکینوں کا کہنا تھا کہ وفاقی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران کو بھی اس کرپشن کے کیس میں شامل تفتیش کرنا چاہئے، جنہوں نے ماضی میں ایم کیو ایم کے عہدیداروں سے مل کر یہ غیر قانونی ملکیتی دستاویزات تیار کرکے دیئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More