مالک الملک نے فریاد سن لی

0

ہشام بن خالدؒ فرماتے ہیں: ’’میں ایک مسجد میں چلا گیا اس حال میں کہ میرے پاس ایک تھیلا تھا، جس میں ہزار درہم تھے۔ ان کے علاوہ میرے پاس کچھ نہ تھا، وہ دراہم میری کل جمع پونجی تھے، میں نے وہ تھیلا ایک ستون کے ساتھ رکھ دیا اور نماز پڑھنے لگا، نماز کے بعد اس تھیلے کو وہیں بھول کر واپس چلا آیا۔
اس تھیلے کو کھونے کی وجہ سے میں بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گیا اور میرے برے حالات کے بوجھ نے مجھے کچل ڈالا، مگر میں نے ایک سال تک کسی کو بھی اپنے حال سے آگاہ نہ کیا۔‘‘
فریاما: ’’اس کے بعد میں نے اس ستون کے پاس نماز پڑھی اور حق تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے وہ تھیلا واپس دلوا دے اور حال یہ تھا کہ ایک بڑھیا میرے برابر میں بیٹھی ہوئی میری دعا سن رہی تھی۔‘‘
اس نے کہا: ’’اے خدا کے بندے! وہ کیا چیز ہے جس کی دعا مانگتے ہوئے میں نے تمہیں سنا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’ایک تھیلا ہے، جس کو پچھلے سال میں اسی ستون کے پاس بھول گیا تھا۔‘‘
وہ کہنے لگی: ’’وہ تو میرے پاس ہے اور پچھلے ایک سال سے میں تمہاری منتظر ہوں، پھر وہ بڑھیاں وہی تھیلا مجھے دے کر چلی گئی۔‘‘
اے فریاد سننے والے!
ایک آدمی سردی کے موسم میں تجارت کی غرض سے نکلا۔ اس کے پاس چار سو درہم تھے، جو اس کی کل جمع پونچی تھے۔ اس نے چار سو درہم کے زریاب (پرندہ) کے بچے خریدے۔
بغداد میں جب وہ اپنی دکان پر آیا تو بہت سرد ہوا چلی، چنانچہ سوائے ایک بچے کے جو سب بچوں سے چھوٹا اور کمزور تھا، باقی سب بچے مر گئے۔ پس اس کو اپنے فقر و فاقہ اور ہلاکت کا یقین ہوگیا۔
اس نے پوری رات رب تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی تاکہ پریشانی سے نجات مل جائے۔
وہ بس یہی کہہ رہا تھا: ’’ یا غیاث المستغیثین اغثنی۔‘‘
یعنی اے مدد طلب کرنے والوں کی مدد کرنے والے! تو میری مدد کر دے۔
چنانچہ صبح کے وقت جب سردی ختم ہوئی تو اس بچے نے اپنے پر پھیلائے اور کہنے لگا: ’’یا غیاث المستغیثین اغثنی۔‘‘ سو لوگ اس کی دکان پر اس پرندے کے بچے کو دیکھنے اور اس کی آواز سننے کے لیے جمع ہونے لگے۔
ام المقتدر کی باندیوں میں سے ایک باندی سواری پر وہاں سے گزری، جب اس نے بھی پرندے کی آواز سنی اور اس کو دیکھا تو اس کی قیمت پوچھی۔ لیکن وہ آدمی خاموش رہا تو اس نے اس بچے کو دو ہزار درہم میں خرید لیا۔
حق تعالیٰ کشادگی لے آئے
ابو الحسن المدائنی اپنی کتاب ’’الفرج بعد الشدۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
خالد نامی شخص کو بہت تنگی اور فقر و فاقے کا سامنا تھا۔ ایک دن وہ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ہشام بن عبد الملک کا قاصد آیا اور عرض کیا: ’’ہشام بن عبدالملک آپ کو عراق کی حکومت دینے کے لیے بلا رہے ہیں۔‘‘ مگر وہ وہیں خاموش بیٹھے رہے، قاصد نے ان سے بہت اصرار کیا۔
خالد نے کہا: ’’تھوڑی دیر ٹھہرو، تاکہ میری قمیص خشک ہو جائے۔‘‘ کیوں کہ انہوں نے وہ قمیص قاصد کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے دھوئی تھی اور ان کے پاس اس قمیص کے علاوہ اور کوئی قمیص نہ تھی۔
قاصد نے عرض کیا: ’’آپ جلدی سے چل کر حاضری دیجیے، آپ کو تو بہت ساری قمیصوں کی طرف بلایا گیا ہے۔‘‘
لہٰذا جب وہ ہشام کے پاس چلے گئے تو ہشام نے ان کو عراق کا گورنر بنا دیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More