راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک)اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک قومی ادارے پر الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے کہا گیا کہ ہماری مرضی کے فیصلے دیں گے تو آپ کو چیف جسٹس بنا دیں گے، آج میڈیا والے بھی گھٹنے ٹیک چکے ہیں اور سچ نہیں بتا سکتے، ان کی آزادی بندوق کی نوک پر سلب ہو چکی ہے، خوف وجبر اور موجودہ ملکی حالات کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی 50 فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے۔،راولپنڈی بار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ بار میں آکر خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی عرصے سے خواہش تھی کیوں کہ میرا احتساب میری بار ہی کر سکتی ہے اور میرے اوپر آج تک کوئی کرپشن کا ایک الزام ثابت نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی اہم فیصلہ دیتا ہوں ایک مخصوص گروہ کی جانب سے مہم چلادی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہی جج صاحب ہیں جن کے خلاف کرپشن ریفرنس زیرسماعت ہے۔جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ میرا دامن صاف ہے اس لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو درخواست دی کہ اوپن ٹرائل کریں لہٰذا تمام وکلاء کو دعوت دیتا ہوں کہ آکر دیکھیں مجھ پر کرپشن کے الزام میں کتنی صداقت ہے؟ اگر کرپشن نظر آئے تو بار مجھ سے استعفی کا مطالبہ کرے تو میں مستعفیٰ ہوجاؤں گا۔ان کا کہنا تھا کہ کہا گیا یقین دہانی کرائیں کہ مرضی کے فیصلے کریں گے تو آپ کے ریفرنس ختم کرادیں گے اور مجھے نومبر تک نہیں ستمبر میں چیف جسٹس بنوانے کی بھی پیش کش کی گئی لیکن مجھے نوکری کی پرواہ نہیں ہے کیوں کہ جج نوکری سے نہیں بلکہ انصاف، عدل اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے۔انہوں نے کہاکہ آج آزاد میڈیا بھی اپنی آزادی کھو کر گھٹنے ٹیک چکا ہے، موجودہ ملکی حالات کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ اور باقی 50 فیصد دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے۔جسٹس شوکت عزیز کا کہنا تھاکہ ابھی تک قانون کے طلبا کو نہیں معلوم کہ جسٹس منیر نے کیا کردار ادا کیا تھا؟ جسٹس منیر کا کردار ہر کچھ عرصے بعد سامنے آتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وکلاء جرائم میں کمی کا سبب بنیں، سہولت کار نہ بنیں کیوں کہ ترقی کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پاکستان کا موازنہ امریکا یا یورپ کے ساتھ نہیں ہوسکتا بلکہ بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا کے ساتھ ہوسکتا ہے