پاکستان اتنا سستا کیوں ہے؟

0

شمس العارفین ان پاکستانیوں میں سے ہیں، جن کی روح پاکستان میں اور جسم پاکستان سے باہر ہوتا ہے، اللہ نے ان کا رزق ملک سے باہر پھیلا دیا ہے اور وہ اپنے حصے کا رزق چننے کے لئے ملک سے باہر مصروف رہتے ہیں، شمس آج کل چکا چوند روشنیوں کے شہر دبئی میں ہیں، وہ جیولوجسٹ ہیں، ایک ملٹی نیشنل آئل کمپنی میں ملازم ہیں اور اچھی پوزیشن پر ہیں، فیملی بچے ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں، والدین واہ کینٹ میں رہائش پذیر ہیں، ان کی یاد آتی ہے تو ضد کرکے انہیں بھی دبئی بلا لیتے ہیں اور سال کے آخر میں ملنے والی چھٹی لے کر سیدھا اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں، ان کی زندگی مزے سے گزر رہی ہے، اللہ رب العزت نے عزت، دولت، سکون، گھر، بچے سب کچھ دے رکھا ہے، لیکن اس کے باوجود شمس العارفین دبئی میں پھڑپھڑاتا رہتا ہے، اسے چین نہیں آتا، کبھی واٹس اپ پر سیلانی کو پیغام بھیجتا ہے، کبھی فیس بک پر تبصرہ کرتا ہے اور جب واٹس اپ اور فیس بک کے پیغامات سے اطمینان نہیں ہوتا تو کال کر لیتا ہے اور خرچ ہونے والے درہموں کی پروا کئے بغیر بات کئے چلا جاتا ہے، جو کچھ اس کے جی میں ہوتا ہے، اسے لفظوں میں ڈھال کر سیلانی کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے باوجود اس کا لہجہ اس کے اندر کے جوار بھاٹے کی نشاندہی کررہا ہوتا ہے، الفاظ اس کی دلی کیفیت کے اظہار کے لئے پورے نہیں پڑتے۔
کچھ اسی طرح کا دل جلا اسٹاک ہوم کا سہیل بھی ہے، سہیل کراچی کا رہنے والا ہے اور غالباً تیس برس پہلے سویڈن ہجرت کر گیا تھا، صاف ستھرا سویڈن اسے اتنا بھایا کہ اس نے وہیں بود وباش اختیار کر نے کا فیصلہ کیا، ایک جج صاحب کی بیٹی سے شادی کی اور باقاعدہ سویڈش شہری ہوگیا، سہیل کی اسٹاک ہوم میں چھوٹی سی ٹیکسی سروس ہے، جس میں مقامی گورے بھی کام کرتے ہیں، جب کوئی ڈرائیور چھٹی کرتا ہے تو سہیل خود بھی ٹیکسی کا اسٹیئرنگ سنبھال لیتا ہے اور اسی روز اکثر سیلانی کے سیل فون پر اسٹاک ہوم سے کال بھی آتی ہے، جب بھی سہیل کی کال آتی ہے، سیلانی کو شمس یاد آجاتا ہے اور جب شمس کال کرکے اپنے مخصوص لہجے میں ’’سرجی‘‘ سے تمہید باندھتا ہے، تو سیلانی کو سہیل یاد آجاتا ہے۔ سہیل اور شمس دونوں مالی طور پر آسودہ ہیں، یہ جہاں رہتے ہیں، وہاں بجلی نہیں جاتی، گھر کے سامنے گٹر نہیں ابلتے، ان کے بچوں کے لئے بہترین اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، کھیلنے کے لئے سرسبز میدان اور پارک ہیں، سفر کرنے کے لئے قالین کی سی بچھی ہوئی سڑکیں ہیں، خریداری کے لئے بہترین بازار اور شاپنگ پلازے ہیں، جہاں ملاوٹ سے پاک چیزیں ملتی ہیں، ان کے ریفریجریٹر میں پڑی دودھ کی بوتلوں میں دودھ ہی ہوتا ہے، یہ مصالحوں کے نام پر پسی ہوئی لال اینٹیں نہیں کھاتے، ان کے گردے میونسلپٹی کے نلکوں سے آنے والا گندا کثیف پانی فلٹر نہیں کرتے اور بہترین حالت میں رہتے ہیں، انہیں سڑکوں پر ٹریفک جام بھی ملتا ہے، مگر کراچی، لاہور اور فیصل آباد والی صورتحال نہیں ہوتی، ان کا پولیس سے کم ہی واسطہ پڑتا ہے، لیکن اگر کبھی ضرورت پڑے تو کسی شرطے یا پولیس مین کے پاس جاتے ہوئے انہیں کوئی ڈر خوف محسوس نہیں ہوتا، پولیس والا انہیں اوئے کہہ کر مخاطب نہیں کرتا، توجہ سے بات سنتا ہے، عزت سے مخاطب کرتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ان دونوں کی زندگی میں راوی نے چین ہی چین لکھ رکھا ہے، مگر پھر بھی یہ بے چین ہو جاتے ہیں اور انہیں یہ بے چینی وطن عزیز کے حالات پر ہوتی ہے۔ شمس اور سہیل دونوں اس وقت بے چین تھے۔ شمس نے سیلانی کو واٹس اپ پر مخاطب کیا:
’’شوکت صدیقی صاحب کچھ دن زبان پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے یا ڈھنگ کے الفاظ نہیں بول سکتے تھے، انہی بے
وقوفیوں کی وجہ سے تباہی ہوئی ہے…‘‘ اس کے ساتھ شمس العارفین نے سیلانی کو جج صاحب کی وہ تقریر بھیج دی، جس نے اک دنیا میں کہرام مچا رکھا ہے، اپنے ملک کے نیوز چینلز سے زیادہ پڑوس کے نیوز چینلز اسے دکھا رہے ہیں، بار بار دکھا رہے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے مخصوص ذہن رکھنے والے تجزیہ نگار لبوں پر طنزیہ مسکان لئے پاکستان پر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نام کا جمہوری ملک ہے، یہاں کنٹرولڈ اور محدود جمہوریت ہے۔
سہیل کا بھی یہی کہنا تھا کہ پاکستان سے اچھی خبریں کیوں نہیں آتیں، آئے دن کوئی نہ کوئی اسکینڈل کیوں خبروں میں آنے کا منتظر ہوتا ہے، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو ریورس گیئر لگا ہوا ہے اور پاکستان کو پیچھے اور پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔
کاش کہ سیلانی کے پاس شمس العارفین اور سہیل بھائی کی بے چینی کا علاج ہوتا، وہ انہیں مطمئن کر سکتا، وہ موجودہ صورت حال سے خود افسردہ، اداس اور اپ سیٹ ہے۔ سوشل میڈیا کی صورت میں گھر داماد دانشوروں کو مشہور ہونے کا ارزاں نسخہ ہاتھ آیا ہوا ہے، وہ آٹھ سو ہزار روپے میں نیٹ کنکشن لے کر دانشوری کی دکان کھول بیٹھے ہیں اور رعایتی سیل بھی لگا لی ہے، ان کے سودے سے اور کوفت ہوتی ہے۔ سیلانی ان دونوں دوستوں کی بے چینی کیا دور کرتا، اپنی پریشانیاں لے کر عمران خان کی جلسہ گاہ چلا آیا، بائیس جولائی کو کپتان نے کراچی میں سیاسی مسلز دکھانے تھے، کپتان نے باغ جناح میں پنڈال سجا رکھا تھا، ایک بڑا کنٹینر میڈیا کے لئے مخصوص تھا، جس پر سیلانی کے ہم پیشہ دوست کیمرا مینوں، فوٹوگرافروں کے ساتھ پہنچے ہوئے تھے، باغ جناح خاصا بڑا میدان ہے، اسے بھرنے کے لئے لگ بھگ ایک لاکھ افراد درکار ہوتے ہیں، پی ٹی آئی نے پنجاب میں جلسوں میں کم حاضری کے سبب اس میدان کے تین حصے چھوڑ کر ایک حصے میں پنڈال بنایا تھا، جسے بھرنا نسبتاً آسان تھا، یہ سہ پہر کا وقت تھا، پی ٹی آئی کے جوشیلے کارکنان پنڈال میں مختلف کام کر رہے تھے، جلسہ شروع ہونے میں ابھی کم از کم چار، پانچ گھنٹے باقی تھے، سیلانی جلسہ گاہ کا جائزہ لینے کنٹینر پر چڑھا تو وہاں بھی ’’جج لیکس‘‘ کا ہی تذکرہ چھڑا ہوا تھا، کیا جونیئر اور کیا سینئر، سب ہی رپورٹر ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر تجزیئے اور تبصرے کر رہے تھے۔ ایک دوست کہنے لگا ’’وقت آگیا ہے سیاست سے ایجنسیوں کا کردار ختم کرنا ہوگا، یہ جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے، جسٹس شوکت نے تو کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے، دودھ کا دوھ پانی کا پانی ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ نون کو حکومت نہیں دینی‘‘۔
سیلانی نے جذباتی دوست کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’ایجنسیوں سے مراد ’’اپنی ‘‘ایجنسیاں ہیں ناں ’’را‘‘ اور ’’سی آئی اے‘‘ کو تو استثنیٰ حاصل رہے گا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب بالکل واضح ہے، سمجھنے والی کیا بات ہے، ہمارے اداروں کے ساتھ سرحد پار والوں کے ادارے بھی تو یہاں کسی نہ کسی مشن میں مصروف ہوتے ہیں، کیا وہ یہاں پھجے پائے والے گھسیٹا خان حلیم فروش سے دوستیاں لگانے آتے ہیں، انتخابات میں اس قسم کا شور شرابا ہوتا رہتا ہے، امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی پر کم شور اٹھا تھا؟ اور ابھی روسی حسینہ نہیں پکڑی گئی؟ ہمارے یہاں بھی شور شرابا ہونا نئی بات نہیں، ہاں ایک جج کی جانب سے اتنے کھلے الزامات پریشان کن اور حیران کن ضرور ہیں۔‘‘
’’سیلانی بھائی! آپ بھی بے چارے سیاستدانوں پر ہی چڑھ دوڑے، یہ آسان ہدف ہیں ناں، اسی لئے ہر ایک نشانہ باندھ لیتا ہے۔‘‘
’’بھائی! ہم میں میر جعفروں کی کب کمی نہیں رہی، اس میں وردی اور شیروانی کا فرق نہیں، سیاستدان بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں، میمو گیٹ اسکینڈل میں حقانی صاحب کس کے لئے کس سے مدد مانگ رہے تھے… اور دور نہ جائیں، سرحد پار سے جندال صاحب کس کا پیغام لے کر اسلام آباد نواز شریف صاحب سے ملنے آئے تھے اور کیا وجہ تھی کہ میاں صاحب کو جندال سے وزیر اعظم ہاؤس میں ملنا محفوظ نہ لگا، آخر ایسا کیا تھا کہ وہ انہیں لے کر مری کی سیر کو چلے گئے… میرے بھائی! ان قوتوں کی جانب بھی تو کبھی توپوں کا رخ ہونا چاہئے، جو پاکستان میں مصروف رہتی ہیں۔‘‘
’’آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بیرونی قوتیں یہاں مصروف ہیں تو اسی لئے اپنے اداروں کو بھی اپنی مرضی کی حکومت بنانے کی اجازت دے دینی چاہئے، واہ سیلانی بھائی واہ کیا منطق ہے۔‘‘
’’یہ آپ کی گھڑی ہوئی منطق ہے، میں نے ہرگز یہ نہیںکہا، ہر ادارے کو اپنی حد میں رہنا چاہئے، ویسے ایک بات بتاؤ، جج صاحب نے جو دھواں دھار تقریر کی ہے اور جو کچھ کہا ہے، وہ سب بار روم کے خطابات میں کہنا چاہئے تھا؟ ایک جج اور سیاستدان میں فرق ہوتا ہے، جسٹس صاحب کو اپنی شکایات کے لئے یہ فورم اس طرح استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا، انہوں نے ایک دن پہلے ہی اپنی عدالت میں بڑے کھل کر ریمارکس دیئے تھے، انہیں کچھ انتظار کر لینا چاہئے تھا، اس خطاب سے پاکستان کو جگ ہنسائی کے سوا کیا ملا ہے؟ جن انتخابات میں تمام سیاسی جماعتیں جا رہی ہیں، ان کے لئے اسی فوج نے ساڑھے تین لاکھ افسر اور جوان دیئے ہیں، ان کے الزامات کے بعد انتخابات پر انگلیاں اٹھانے والوں کو موقع نہیں مواقع مل جائیں گے…‘‘ سیلانی بات کر رہی رہا تھا کہ اسٹیج پر نصب خوفناک طاقت والے اسپیکروں سے زور دار آواز میں پی ٹی آئی کا ترانہ بجنے لگا:
’’آئے گا عمران سب کی جان
بنے کا نیا پاکستان… بنے گا نیا پاکستان‘‘
سیلانی کی بات بیچ ہی میں رہ گئی اور اس نے اسے مکمل کرنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی، سچی بات ہے موجودہ صورت حال نے اس کا دل بھی افسردہ کر دیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے لگی لپٹی کے بغیر صاف الفاظ میں سنگین الزامات لگائے ہیں، آئی ایس پی آر نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے تحقیقات کا بھی مطالبہ کر دیا ہے، یقینا اس کی انکوائری بھی ہوگی، لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی جرنیل ہو جرنلسٹ یا جج وہ اس حدتک کیوں پہنچ جاتا ہے کہ وطن عزیز پر انگلیاں اٹھنے لگ جاتی ہیں… آخر میرا پاکستان اتنا سستا کیوں ہے؟؟؟ سیلانی یہ سوچتا ہوا جلسہ گاہ میں تھرکتے پی ٹی آئی کے ماموں اور کارکنوں کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More