افغانستان اور متضاد امریکی اشارے

0

مسعود ابدالی
کے معاملے پر امریکہ کا مؤقف صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی روایتی تلون مزاجی کا شکار نظر آرہا ہے۔ چند روز پہلے افغانستان میں امریکی فوج کے سپہ سالار جنرل جان نکلسن کے حوالے سے رائٹرز نے انکشاف کیا کہ امریکہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ اس خبر کا قطر میں تعینات طالبان کے نمائندے ملا سہیل شاہین نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان سے غیر ملکی فوج کی واپسی کیلئے امریکہ سے بات چیت پر رضامند ہیں۔ لیکن اس کے دوسرے ہی دن افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان نے جنرل جان نکلسن کی جانب سے ایک وضاحتی بیان جاری کر دیا، جس میں کہا گیا کہ امریکی وزیر خارجہ پومپیو کے حوالے سے امریکی جنرل کے بیان کی غلط تشریح کی گئی ہے۔ پائیدار امن کی خاطر امریکہ طالبان، افغان حکومت اور افغان عوام کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن امن مذاکرات کا عمل افغان قیادت کے تحت ہو گا۔
امریکہ کے سفارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ طالبان سے براہ راست مذاکرات پر آمادگی صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجی کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار ہے، یعنی جناب ٹرمپ کو اب یقین ہو چلا ہے کہ امریکی فوج طالبان کو شکست دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی، جبکہ اس فضول مہم جوئی پر امریکی ٹیکس دہندگان کے 70 ارب ڈالر سالانہ ضائع ہو رہے ہیں۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے خیال میں افغانستان سے امریکی فوج کا باوقار انخلا ہی مسئلے کا سب سے بہترین حل ہے۔
کل ایسوسی ایٹیڈ پریس نے امریکی فوج کی مرکزی کمان CENTCOM کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کے حوالے سے انکشاف کیا کہ گزشتہ سال اگست میں صدر ٹرمپ نے افغانستان کیلئے جس نئی فوجی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے، اس کا ایک تنقیدی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے قوم سے خطاب میں ’’فتح مبین‘‘ کیلئے جس جارحانہ حکمت عملی کا اعلان کیا تھا، اس میں طالبان کے
ٹھکانوں پر خوفناک بمباری، پاکستان پر طالبان کو ہتھیار رکھنے پر مجبور کرنے کیلئے شدید دبائو شامل تھا۔
عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ 600 فضائی حملے فی مہینہ سے بھی طالبان کی فوجی قوت متاثر نہیں ہوئی اور انہیں بہت ہی معمولی سا نقصان پہنچا، جبکہ شہری ہلاکتوں نے طالبان کیلئے عوامی حمایت میں اضافہ کر دیا اور اب افغانستان کے مزید دیہی علاقے طالبان کے زیر اثر آگئے ہیں۔
اخباری رپورٹ کے مطابق جنرل جوزف ووٹل نے کہا کہ ان کے جائزے میں ان پہلوؤں کو زیر غور لایا جا رہا ہے، جس سے طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے امن مذاکرات کے حصول کا امکان بہتر بنانے میں مدد ملے۔
جنرل ووٹل نے کہا یہ پیش گوئی بہت مشکل ہے کہ ان کے تجزیئے کے نتیجے میں امریکہ کی افغان حکمت عملی میں کوئی بڑی تبدیلی آئے گی اور ہو سکتا ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہ ہو۔
ہمارے خیال میں جنرل ووٹل سے منسوب بیان کی یہ آخری سطر مغرور محبوبہ کے اقرار سے پہلے کے نازو انداز ہیں۔ خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے۔
دوسری جانب اپریل میں ایک مدرسے پر افغان فضائیہ کی بمباری سے مارے جانیوالے معصوم حفاظ کا زخم ابھی تازہ ہی تھا کہ قندوز کے چہار درہ ضلع کے دیہی علاقے پر شدید بمباری نے 28 بے گناہوں کی جان لے لی۔ جمعرات کی صبح ہونے والی اس بمباری نے تین کچے مکانات کو زمیں بوس کردیا۔ ہلاک شدگان میں ایک ہی خاندان کی 4 خواتین اور 5 بچوں سمیت 13 افراد شامل ہیں۔ ضلعی گورنر زلمے فاروقی کا کہنا ہے کہ بمباری کا ہدف ضلع پر قابض طالبان تھے اور سویلین ہلاکت نشانہ خطا ہو جانے کا نتیجہ ہے، لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ رباط گائوں میں جہاں امریکی فضائیہ نے بمباری کی، ایک بھی طالبان چھاپہ مار موجود نہ تھا۔ مارے جانے والوں کی تدفین کے وقت پسماندگان نے امریکہ اور صدر اشرف غنی کے خلاف نعرے لگائے۔ ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ بمباری میں 20 خواتین ماری گئیں۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More