’’سچے اپنوں کا انتخاب کیجئے‘‘

0

ڈاکٹر صابر حسین خان
’’میں نے منیجر سے بات کرلی ہے۔ تم چیک دوبارہ ڈالوا دو۔ کلیئر ہو جائے گا۔‘‘ فرحان کا جب فون آیا تو اُس وقت تک میں، اُس بینک کے اسسٹنٹ منیجر سے بات کرچکا تھا۔ جس بینک کے سات ارب روپے نیب یا سپریم کورٹ یا پتہ نہیں کِس نے freeze کر دیئے تھے۔ منی لانڈرنگ، کرپشن یا پتہ نہیں کِس وجہ سے۔ اور چونکہ مذکورہ بینک میں میرا بھی اکائونٹ تھا، گزشتہ آٹھ نو سال سے اور کچھ پیسے اُس میں پڑے ہوئے تھے۔ تو حفظ ما تقدم میں اُس میں سے پیسے نکلوا رہا تھا اور چونکہ مجھے فرحان کو بھی پیسے دینے تھے، تو اُسے چیک دے دیا تھا۔
’’آپ الیکشن اور کرپشن پر کیوں نہیں لکھتے، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اگلے الیکشن میں صوبائی حلقے سے آپ بھی آزاد امیدوار کھڑے ہو جائیں۔‘‘ فرحان نے مشورہ دیا۔ ’’میں بہت سی جگہوں پر گیا ہوں۔ زندگی میں پہلی بار کراچی میں آزاد امیدواروں کے بینرز دیکھے ہیں۔ یہ ساری سیاسی پارٹیاں کرپٹ ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ جب ملک میں عام آدمی میرے اور آپ جیسے آدمی اپنے اپنے حلقوں کے مسئلوں کے لئے آگے نہیں آئیں گے۔ تب تک یہ سیاسی پارٹیاں اِسی طرح ہم آپ کو بے وقوف بنا کر اپنا الّو سیدھا کرتی رہیں گی۔ یہ سب گزشتہ 30برسوں میں ہم سب سے پیسہ لوٹ کر باھر لے گئے اور کھربوں پتی بن گئے اور اب ہمیں اپنے دو تین لاکھ روپے بچانے مشکل ہو رہے ہیں کہ کہیں وہ بھی ڈوب نہ جائیں اور بینک بند نہ ہو جائے۔ ان لوگوں سے جان چھڑانی چاہئے ،سب مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘ فرحان دِل سے کہہ رہا تھا۔ میرا دِل بھی دُکھا ہوا تھا اور سب سے بڑی بات مذکورہ بینک کے نام کو خبروں کی زینت بنتے ہوئے دیکھ کر اور پـڑھ کر میری اپنی کاہلی اور سُستی پر بھی ضرب پڑگئی تھی۔ اُس کا غصّہ الگ تھا کہ اب پھر کسی اور بینک کے چکر کاٹنے پڑیں گے۔ آج کل بینک اکائونٹ کھلوانا بھی سرکار کے دیگر کاموں کی طرح دشوار ہے۔
اکائونٹ تو پھر بھی کُھل جائے گا کبھی نہ کبھی۔ ہماری جذباتیت سے نچڑتی قوم کی سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ وہ فطرتاً Anti Hero ہے۔ جذبات میں اندھی گونگی ہوکر بُت تراشی کی ماری قوم اپنے تراشے ہوئے بتوں سے بیزار ہوتی ہے۔ تو کل کا ہیرو آج کا اینٹی ہیرو قرار پاتا ہے۔ یکدم وِلن بن جاتا ہے اور ایسا ہر اُس قوم ہر اُس مُلک میں ہوتا ہے، جہاں انفرادی، خاندانی اور ملکی و حکومتی ہر سطح پر کسی قسم کا کوئی نظام، کوئی سسٹم نہیں ہوتا۔ ہر فرد محض اپنے لئے جیتا ہے۔ اجتماعی اور قومی فائدوں کا سوچتے ہوئے سب کے پر جلنے لگتے ہیں۔ ذاتی مفاد، خود غرضی اور نفسا نفسی۔ یہ تینوں عناصر آج ہماری قوم کا ناسور بن چکے ہیں۔ کیا صحیح ہے کیا غلط۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ جو ملتا ہے اور جیسے ملتا ہے، لے لو۔ چھین لو۔ قبضہ کرلو۔ صحیح کام بھی غلط طریقے سے کرنا ہے اور غلط کاموں کو اور فروغ دینا ہے۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ ہماری قوم ستر سال سے جوبوتی رہی ہے۔ اپنے حکمرانوں کی شکل میں کاٹتی رہی ہے۔ ہم اگر چار روپے کی چوری کریں گے تو ہمارے سروں پر چار ارب چرانے والوں کو ہی مسلط کیا جائے گا۔ قوانین قدرت کبھی کسی قوم کے لئے نہیں بدلے۔
آج ہمیں قدرت پھر ایک بار موقع دے رہی ہے خود کو بدلنے کا۔ ہم صدقِ دِل سے توبہ کریں گے اور خود کو بدلنے کا عہد کریں گے تو لا محالہ نئے حکمرانوں کے انتخاب کے دن ہمارے دل میں صحیح نشان پر ٹھپّہ لگانے کا خیال ہوگا۔ ہم سچّے بننے، دیانت دار اور ایماندار بننے اور خلوص سے لوگوں کی خدمت کا جذبہ رکھنے کی اندرونِ خانہ تبدیلی لائیں گے تو اُس کی روشنی باہر بھی پھیلے گی۔ شمع سے شمع جلے گی۔ آج اور اِسی لمحے اپنی ذات کو بدلنے کا وعدہ کرلیجئے۔ اپنے اندر سچائی اور حق گوئی کو لانے اور پروان چڑھانے کا عہد کرلیجئے۔ از خود ہماری آنکھوں پر سے پردہ ہٹ جائے گا اور ہمیں اپنوں اور سچّوں کی پہچان ہو جائے گی۔
نعروں، جھوٹے وعدوں، بڑی بڑی باتوں اور کرپشن میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو خود سے دور کرلیجئے۔ جذباتیت اور ذاتی مفاد کے بُت توڑ دیجئے۔ میرٹ کا نظام اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے خاندان کے ساتھ قوم و ملک کیلئے بھی لاگو کیجئے۔ میرٹ کی بنیاد صرف سچائی، ایمانداری اور دیانتداری ہونا چاہئے۔ میرٹ کے نظام میں مستحق کو اُس کا حق ملتا ہے۔ میرٹ کے نظام میں کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ کوئی پرایا نہیں ہوتا۔ میرٹ کا فیصلہ تقویٰ، اخلاق، علم، کام، خلوص اور دیانتداری پر ہوتا ہے۔ جو سچّا ہے وہ اپنا ہے۔ جو جھوٹا ہے اور بے ایمان ہے اور ذاتی مفادات کا شکار ہے۔ وہ خواہ سگا اور خونی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، وہ پرایا ہے۔
اپنے سچّے اپنوں کا انتخاب کیجئے۔ ذاتی پسند کو قوم و ملک کی فلاح کیلئے قربان کردیجئے۔ اعلیٰ ذاتی کردار اور شخصیت کے حامل لوگوں کو اپنا حکمران چنئے۔ ایسے سچّے اور دیانتدار لوگ دھوکہ نہیں دیتے، چوری نہیں کرتے۔ ایسے لوگ منتخب ہو کر خلوص اور محنت سے اپنوں کی خدمت کرتے ہیں۔ اپنے بینک بیلنس نہیں بڑھاتے۔ جائیدادیں نہیں بناتے۔ ملک سے باہر جاکر خود ساختہ جلاوطنی اختیار نہیں کرتے۔ ’’سچّے اپنے‘‘ اپنوں کے ساتھ، آپ کے ساتھ، میرے ساتھ جیتے مرتے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ میرے اور آپ کے کام آتے ہیں۔ کسی ذاتی لالچ کے بِنا۔ کِسی ذاتی فائدے کی توقع کے بِنا۔
ہاں البتہ اگر آپ کے اپنے دل میں کھوٹ ہے۔ آپ کے اپنے دل کا چور آپ کو کسی جھوٹی شخصیت، کسی جھوٹے نعرے، کسی ذاتی پسند، کسی کھوکھلے لسانی و نسلی نظریئے کی پرستش میں آپ کو اُلجھائے ہوئے ہے تو پھر اس بار بھی آپ اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے درپے ہوں گے۔
اپنے دل کے چور کو خیرباد کہہ دیجئے۔ ایسا موقع بار بار نہیں آتا۔ اِس بار سچے دِل سے ’’سچّے اپنوں‘‘ کا انتخاب کیجئے۔ اسی میں آپ کی بھلائی ہے۔ اسی میں آپ کے بچوں اور آنے والی نسلوں کی خوش نصیبی ہے۔ اس میں ملک و قوم کی فلاح ہے۔ اس بار اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر اجتماعی خوشحالی کو ووٹ دیجئے۔ اپنے اپنے حلقوں میں اپنے سچّے اپنوں کو منتخب کیجئے۔ تاکہ اِس بار چند برسوں بعد آپ کے منتخب کرہ ہیرو، ہیرو ہی رہیں۔ ہیرو سے زیرو نہ بن جائیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More