اب تک فوج اور عدلیہ کے بارے میں عوام کا بھرپور اعتماد قائم تھا کہ یہ دونوں ادارے اپنی اپنی آئینی و قانونی حدود میں رہ کر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ حکومت یا سیاست میں فوجی عدم مداخلت کا تصور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور سے قائم ہو کر بہت استحکام حاصل کر چکا ہے، جس سے اہل وطن کا فوج پر اعتماد مزید مستحکم ہوا۔ اسی طرح بعض تحفظات کے باوجود سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے وقت سے عدلیہ بھی عوام کی معتمد علیہ رہی ہے۔ ان اداروں میں بھی گوشت پوست کے انسان اور اسی معاشرے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، لہٰذا ان سے بشری تقاضوں کے تحت کمزوریوں کا ارتکاب ممکن ہے، لیکن نام لیے بغیر اور ثبوت و شواہد کی عدم موجودگی کے باوجود مبہم طریقے سے الزام تراشی جہاں قومی زندگی کے دیگر شعبوں میں ناپسندیدہ ہے، وہاں فوج اور عدلیہ جیسے معتمد اداروں کے بارے میں لب کشائی کرتے ہوئے سو بار سوچنے کی ضرورت ہے، ان پر سے بھی اعتماد اٹھ گیا تو سیاستدان، مفاد پرست حکمران اور نوکر شاہی کے کل پرزے پہلے سے زیادہ من مانی اور بدعنوانی کرتے ہوئے ملک کو کہیں کا نہ چھوڑیں گے۔ اگر ان اداروں میں کہیں کرپشن موجود ہے تو اس کے دو پہلوئوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اول، عدلیہ اور فوج میں اندرونی طور پر احتساب کا کڑا نظام موجود ہے، جس سے عام شہری واقف نہیں، اس لیے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ دونوں اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد خواہ کچھ بھی کرتے پھریں، ہر قسم کے مواخذے اور احتساب سے ماورا ہیں۔ دوم، بالفرض محال یہ مان لیا جائے کہ فوج اور عدلیہ کے بعض لوگوں کی بدعنوانیاں منظر عام پر نہیں آتیں، تب بھی یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ سیاستدانوں اور سیاسی حکمرانوں کی بے تحاشا لوٹ کھسوٹ کے مقابلے میں فوجی اور عدالتی اہلکاروں کی مبینہ بدعنوانیاں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتیں۔ اس کی واضح مثال جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ملک میں قائم ہونے والی فوجی حکومتیں ہیں، جنہیں فوجی آمریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام فوجی ادوار میں امن و امان کی صورت حال عام طور پر بہتر رہی۔ نہ پاکستانی کرنسی بہت زیادہ بے قدر ہوئی اور نہ اشیائے صرف کی قیمتیں روزمرہ کی بنیاد پر بڑھتی نظر آئیں۔ جبکہ سیاسی حکومتوں کے ہر دور میں خزانے اور وسائل کی بری طرح لوٹ کھسوٹ اور قومی اداروں کی تباہی و بربادی کے گواہ پاکستانی عوام ہی نہیں، اقوام عالم بھی رہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے کارندوں کا جو احتساب شروع ہوا تو انہوں نے لوٹی ہوئی دولت واپس قوم کے سپرد کرنے کے بجائے فوج اور عدلیہ پر تبریٰ بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ انہیں ذمے دار ٹھہرانے کے علاوہ ان کی ملی بھگت کا تاثر اور انہیں آپس میں لڑانے کا سلسلہ سب سے زیادہ خطرناک ہے، جس کے ایک اہم کردار اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ہیں، جو اپنے فیصلوں سے زیادہ عدالتوں کے باہر بولنے کی شہرت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ روز راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدلیہ بندوق والوں (فوج) کے کنٹرول میں آگئی ہے اور اس کی آزادی سلب ہو چکی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ خفیہ اداروں کے اہلکار نہیں چاہتے کہ نواز شریف اور مریم نواز پچیس جولائی (عام انتخابات) سے پہلے جیل سے باہر آئیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ خفیہ ادارے عدالتی معاملات میں پوری طرح ملوث ہیں اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے بعض ارکان پر بھی سنگین الزامات عائد کئے۔ خود کو سچا، کھرا، دیانتدار اور جرأت مند سمجھنے والے جسٹس شوکت عزیز کو مبہم باتیں کرنے اور کسی ثبوت کے بغیر عدالت سے باہر الزام لگانے کے بجائے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کھل کر بیان دینے اور ملوث اہلکاروں کا نام لینے کی ضرورت تھی اور اگر یہ سب کچھ کرنے کی ہمت نہیں تو خاموشی سے عدالت میں بیٹھ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرتے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس شوکت صدیقی کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ کسی مائی کے لعل میں یہ جرأت نہیں کہ وہ عدلیہ پر دبائو ڈال سکے۔ اسلام آباد کے ایک جج کا بیان بہت افسوسناک، ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے۔ میں عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے یقین دلاتا ہوں کہ ہم پوری طرح آزادی اور خود مختاری کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب فوجی ترجمان نے جسٹس شوکت صدیقی کے بیان اور الزامات پر چیف جسٹس سے تحقیقات اور مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ الیکشن سے دو چار روز قبل جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی بیان بازی اور الزام تراشی ناقابل فہم نہیں، بلکہ اس سے واضح طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ شریف خاندان کی لوٹ کھسوٹ پر کارروائی اور ان کے خلاف مقدمات اور سزائوں پر ناخوش ہیں۔ ایک سیاسی رہنما کے طور پر تو ان کی بیان بازی قابل قبول ہو سکتی تھی، مگر وہ ایک اعلیٰ عدالت کے جج ہیں، لہٰذا عوامی جلسوں میں کچھ کہتے وقت انہیں بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے خلاف ریفرنسز سے توجہ ہٹانے کے لیے ایوان عدل سے باہر غیر ضروری باتیں کر رہے ہیں۔ فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے کی اس کوشش کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہئے۔ اپنے بیان کے حق میں ان سے ٹھوس ثبوت و شواہد طلب کرنے کی ضرورت ہے، جو اگر فراہم کر دیئے جائیں تو متعلقہ اداروں اور شخصیات کے خلاف آئین و قانون کے تحت سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ بصورت دیگر جسٹس شوکت صدیقی کو سبق سکھانے اور اپنے دائرئہ کار میں رہ کر کام کرنے کا پابند بنانا ضروری ہے۔ دو روز بعد ہونے والے انتخابات میں اگر عمران خان کی تحریک انصاف نے زیادہ نشستیں حاصل کر لیں تو جسٹس صدیقی کے پیدا کردہ اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ فوج کی حمایت سے انہیں اقتدار سونپا جا رہا ہے۔ حالانکہ عمران خان کی مقبولیت ماضی کے مقابلے میں بہت کم رہ گئی ہے۔ وہ اخلاقی لحاظ سے بھی اس ملک کا سربراہ بننے کے لائق نہیں، جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور جس کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ سابقہ رہنمائوں نے ملک کو سیاسی و معاشی طور پر مغرب کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ خدا نخواستہ عمران خان جیسے کردار کا حامل کوئی شخص ملک و قوم پر مسلط ہوگیا تو پاکستان میں مغربی تہذیب و ثقافت کے آگے بند باندھنا مشکل ہو جائے گا، جبکہ اس کے پیچھے یہودی سرمایہ اور سازشیں بھی کارفرما ہوں گی۔
Prev Post