سندھ میں اس وقت موسم کی گرمی اپنے عروج پر ہے۔ خاص طور پر لاڑکانہ، نواب شاہ، سکھر، گھوٹکی، جیکب آباد اور شمالی سندھ کے وہ سارے علاقے جہاں موسم گرما میں دھوپ کی شدت سے نہ صرف غریب لوگوں کے چہرے بلکہ ہرے بھرے پودے بھی کمہلا جاتے ہیں۔ ان سخت گرمیوں میں سیاست کا ٹمپریچر گرمیوں کا ساتھ دینے کے بجائے اس کا مخالفت میں مقابلہ کر رہا ہے۔ سندھ میں جتنی شدید، موسم کی گرمی ہے، اتنی شدید، سیاست کی سردی ہے۔ اتنی سرد روی کا سبب صرف یہ نہیں کہ اس بار الیکشن کمیشن نے ساری جماعتوں کو انتخابی اصولوں کا پابند بنایا ہے۔ الیکشن کمیشن کی اس سختی کی وجہ سے اندرون سندھ سیاسی میلے کا سماں نہیں ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی لاج رکھ لی ہے۔ اگر اس بار بھی سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم میں دل کھول کر خرچ کرتیں تو ہر شہر کے ہر چوراہے پر لاؤڈ اسپیکر تو بجتے سنائی دیتے، مگر ان سیاسی نغموں پر رقص کرنے کے لیے کرائے کے رقاص بلائے جاتے، کیوں کہ اس بار سندھ میں انتخابات مایوسی کے موسم میں ہو رہے ہیں۔ جمہوریت سب کو جشن منانے کا حق فراہم کرتی ہے، مگر اس حق کا بھر پور استعمال وہ پیپلز پارٹی کرتی رہی ہے، جس کی انتخابی مہم پر اس بار مایوسی کے سائے منڈلاتے نظر آئے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار اس بار اپنی جیت کے بارے میں پچھلے دو انتخابات کی طرح پر اعتماد نہیں ہیں۔ ان کو یہ بات شدت سے محسوس ہو رہی ہے کہ سندھ کے لوگ انہیں تیسری بار اقتدار کی مسند پر دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب تک پیپلز پارٹی کے امیدوار اپنے بنگلوں سے نہیں نکلے تھے، اس وقت تک انہوں نے تلخ سچائی کا سامنا نہیں کیا تھا۔ ان کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ جو لوگ بنگلے میں آتے ہیں، وہ حقیقت بیان نہیں کرتے۔ وہ لوگ مجبور ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ہونٹ سلے ہوتے ہیں۔ ان چند لوگوں کو دیکھ کر پی پی امیدواروں نے سوچا کہ جب وہ باہر نکلیں گے، ان پر ووٹوں کے وعدوں کی بارش ہوگی۔ مگر اس بار پیپلز پارٹی کے عوامی حلقوں میں سخت صدمات منتظر تھے۔ یہ بات پیپلز پارٹی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ لوگ موبائل کیمروں کے ساتھ ان کا احتساب کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے وہ سابق وزیر جنہوں نے گزشتہ دونوں انتخابات میں صرف بینظیر بھٹو کے نام پر ووٹ حاصل کیے تھے اور حکومت میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر اپنے حلقے پر نظر نہیں ڈالی، ان کو اس بار سخت آزمائش کا سامنا تھا، مگر اپنے حلقے کے لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہنے والے خورشید شاہ جیسے سینئر امیدواروں نے اس بار سوچا بھی نہیں تھا کہ سکھر کے لوگ ان سے سخت سوالات کریں گے اور وہ اس بار جیتنے کے لیے اپنے سر پر بندھی ہوئی پگڑی عوام کے قدموں میں رکھنے کی بات کریں گے اور ہاتھ جوڑ کر ان سے کہیں گے کہ ہمارے بزرگوں کے نام پر ہمیں ووٹ دو اور ہماری قربان ہونے والی قیادت کے نام پر ہمیں ووٹ دو۔ عوام کے اس قدر مجبور ہونے کا پیپلز پارٹی والوں کو تصور بھی نہیں تھا۔ اس بار پیپلز پارٹی کو تصورات سے زیادہ تکلیف کا سامنا ہے۔
آصف زرداری نے اپنے طور پر سارے احتیاطی اقدام اٹھائے تھے۔ انہوں نے ہر اس شخص کو پیپلز پارٹی میں شامل کیا تھا، جس کو انتخابی زبان میں ’’الیکٹ ایبل‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر وہ شخص پیپلز پارٹی میں دیکھا گیا، جس کے پاس ووٹ بھی تھے اور جس کے پاس نوٹ بھی تھے۔ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کے متبادل کو سندھ میں پیدا ہونے سے روک کر رکھا۔ آصف زرداری کی بہن فریال تالپور نے سندھ کے وڈیروں سے مسلسل رابطے رکھے۔ پارٹی کے ناراض افراد کو منانے سے لے کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ تک پی پی قیادت نے ہر ممکن کوشش کی کہ انتخابات میں مخالفوں کو سر اٹھانے نہ دیا جائے، مگر صرف اچھی اور حوصلہ افزا رپورٹس سننے کی عادی قیادت کو اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ سندھ کے پیر پاگارا کے ڈرائنگ روم میں ہونے والی میٹنگز ایک دن اس حد تک پہنچ جائیں گی کہ وہ سندھ کے وڈیروں اور پیپلز پارٹی کے ناراض افراد کو اپنے ساتھ ملا کر ایک مضبوط محاذ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بات پیپلز پارٹی کی قیادت کے تصور سے بھی بلند تھی کہ انہیں اس بارے میں فکرمند ہونا پڑے کہ انہیں سندھ سے انتخابات میں شکست بھی ہو سکتی ہے۔ جب تک انتخابی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئی تھیں، تب تک پیپلز پارٹی خوش فہمی کی آغوش میں سکون کے ساتھ سو رہی تھی۔ مگر جب پیپلز پارٹی حقیقت کی کڑی دھوپ میں آئی، تب ان سارے تجزیوں کے پیر جلنے لگے، جو تجزیئے انہوں نے رات کی محفلوں میں بار بار سنے تھے۔ آخر پیپلز پارٹی کی پہلی اور دوسری قیادت سے تعلق رکھنے والے کیا کرتے؟ بات صرف ان کی اپنی عقل تک محدود ہوتی تو بھی ٹھیک تھی، مگر جب مہنگے کھانے پینے کی محفلوں میں موجود ملک کے مشہور صحافی اور تجزیہ نگار بھی انہیں کامیابی کی پیشگی مبارک دے رہے تھے اور انہیں بتا رہے تھے کہ ’’سندھ کے مڈل کلاس طبقے کا ایک حصہ آپ سے ناراض ضرور ہے، مگر اس کی ناراضی اس حد تک ہرگز نہیں جائے گی کہ وہ پیر پاگارا کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور پیپلز پارٹی کی مخالفت میں عملی کردار ادا کرے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہی بتایا گیا کہ ان کی مخالفت صرف اس سوشل میڈیا تک محدود ہے، جس کے سرگرم ارکان ووٹ دینے کے لیے پولنگ اسٹیشن تک جانے کی تکلیف اٹھانا گوارا نہیں کرتے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو جو بات بھی بتائی گئی، وہ اچھی بتائی گئی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت سے الیکٹرانک میڈیا پر بہت زیادہ ریٹنگ رکھنے والے بظاہر سنجیدہ اینکز اور تجزیہ نگاروں نے یہ کہا کہ اس بار بھی سندھ کے غریب لوگ شہید بی بی کے نام پر ووٹ نچھاور کریں گے۔ کیوں کہ اس بار بلاول سندھ میں انتخابی مہم کی قیادت کرے گا اور لوگوں کو ان میں بینظیر بھٹو کی تصویر نظر آئے گی تو وہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ دو حکومتوں کی کارکردگی کو بھول جائیں گے۔ مگر اس بار حقیقت ان خوش فہم تجزیات کے مخالف رہی۔ امکانی خطرات کے باوجود بھی بلاول نے اپنا قدم بڑھایا اور اس نے سخت گرمی کے موسم میں بھی سندھ میں انتخابی مہم کی قیادت کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امیدواروں اور عہدیداروں کے حوالے سے پیپلز پارٹی ایک بہت بڑی جماعت ہے، اس لیے بلاول جہاں بھی گئے، اس شہر میں انتخاب لڑنے والے پانچ چھ امیدواروں نے اپنے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی شرکت کو یقینی بنایا۔ اس لیے بلاول کے انتخابی جلسوں میں دس بارہ ہزار لوگ ضرور نظر آئے، مگر ان لوگوں میں وہ جوش خروش نہیں تھا، جس میں عوامی جذبے کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان جلسوں میں لوگ تھے، مگر وہ لوگ جنہیں بلایا گیا تھا، وہ لوگ جنہیں لایا گیا تھا، ان لوگوں میں وہ لوگ نہیں تھے، جو دل کے کہنے پر آتے ہیں۔
آج کی شام جب انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوں گے، اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس بات کا شدید احساس ہوگا کہ ’’جیالا‘‘ نامی وہ سیاسی جنس جو صرف پیپلز پارٹی کے پاس موجود تھی اور جو وقت کے ساتھ معدوم ہوتی گئی، اس کو پھر سے پیدا کرنے میں وہ بلاول بھی کامیاب نہیں ہو پائے، جنہیں بینظیر کی تصویر بنانے کے سلسلے میں ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں بلاول کے نام سے صرف بھٹو کا نام جوڑنا کافی نہیں تھا۔ بلاول کو بینظیر کی یاد بنانے کے لیے اس کی ہر تصویر اور اس کی ہر تقریر اس طرح سے تیار کی گئی کہ انہیں دیکھ کر لوگوں کو ’’شہید بی بی‘‘ کی یاد آئے، مگر تمام تر کوششوں کے باوجود بھی بلاول پر آصف زرداری کا سایہ منڈلاتا رہا۔ اس بار انتخابی مہم میں بلاول بھٹو زرداری وہ پرستار پیدا نہ کر پائے، جو ہر کرشماتی لیڈر کی پہچان بنتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے اور اس حقیقت سے ملک کے سارے سینئر تجزیہ نگار آگاہ ہیں کہ ہر کامیابی لیڈر نہ صرف اپنی سیاسی ٹیم، بلکہ اپنے سیاسی دوست اور اپنے سیاسی دشمنوں کا تعین خود کرتا ہے۔ ہر مقبول سیاسی لیڈر کو اپنے پرستاروں کا حلقہ نصیب ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی تھی، مگر جب مذکورہ پارٹی کی باگ ڈور بینظیر کے ہاتھ میں آئی تو نہ صرف پی پی کی سینٹرل کمیٹی بلکہ ان جیالوں کی ایک اور قسم وجود میں آئی، جنہوں نے بینظیر بھٹو میں اپنی رہنما کو دیکھا۔ بینظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کو اپنے ہاتھوں میں لیا، مگر بلاول کو پارٹی کا چیئرمین بنانے کے باوجود بھی اسے ایک مقبول اور کرشماتی کشش والا لیڈر بنانے میں کامیاب نہ ہو پایا، پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے پارٹی قیادت کو یقین دلایا کہ بلاول جب آئے گا، تب پوری سیاست پر چھا جائے گا۔ مگر پیپلز پارٹی کی یہ امید پوری نہیں ہو پائی۔ وہ قوتیں جن کے بارے میں اس وقت بلاول بھٹو زرداری سر عام کہہ رہا کہ ہمارے لوگوں کی ہمت اور وفا کو کمزور کرنے کے لیے انہیں دھمکی آمیز ٹیلی فون کیے جا رہے ہیں، ان قوتوں کے بارے میں پہلے یہ تجزیات تھے کہ وہ پیپلز پارٹی کو توڑنے کی کوشش کریں گی، مگر انتخابی ماحول میں پیپلز پارٹی اس قدر کمزور نظر آئی کہ مبینہ قوتیں پیپلز پارٹی کو توڑنے کے الزام سے بچ گئیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج سندھ کے انتخابی میدان میں ایک طرف بلاول بھٹو زرداری ہیں اور دوسری طرف جی ڈی اے کی قیادت کرنے والی فنکشنل لیگ کے سربراہ اور حر جماعت کے روحانی رہبر پیر پاگارا ہیں۔ موجودہ پیر پاگارا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کے مقابلے میں سیاسی داؤ پیچ بہت کم جانتے ہیں، مگر ایک وقت وہ بھی تھا جب بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے مڈل کلاسی امیدوار پرویز شاہ نے پیرپاگارا کو شکست دی تھی اور اس بار پیر پاگارا کے بیٹے نے پیپلز پارٹی کو سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ پیپلز پارٹی جی ڈی اے سے زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب ہونے کے باجود بھی اقتدار تک پہنچنے میں ناکام رہ سکتی ہے۔ کیوں کہ سندھ کی تاریخ میں ایک سیٹ والے چیف منسٹر بھی دیکھے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس امکان سے خوفزدہ ہے۔ مگر اس کو اصولی طور پر اس بات سے پریشان ہونا چاہئے، جب پولنگ اسٹیشن کے قریب ہوٹل پر بیٹھے ہوئے دو عام لوگ ایک دوسرے سے پانچ پانچ سو روپیوں کی شرط لگاتے ہیں کہ ’’سندھ میں اس بار کون جیتے گا؟ پیپلز پارٹی یا پیر پگارا؟‘‘٭
Next Post