پاکستان کو قائم و دائم رکھنے والی ذات الٰہی

0

پانچ سال بعد پاکستان ایک بار پھر عام انتخابات کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں تمام جائزوں کے مطابق نتائج کی صورت حال واضح تھی کہ قومی اسمبلی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی، جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف دوسری جماعتوں کے اشتراک سے حکومت کرے گی۔ بلوچستان میں صورت حال واضح نہیں تھی، چنانچہ مسلم لیگ نے نیشنل پارٹی کے ساتھ سودے بازی کر کے پہلے اس کے رہنما عبد المالک بلوچ کو نصف مدت کے لیے وزیر اعلیٰ بنا کر مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ عبد المالک بلوچ سات جون 2013ء سے تیئس دسمبر 2015ء تک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے۔ اس کے بعد معاہدے کے مطابق مسلم لیگ کے ثناء اللہ خان زہری کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا، جو نو جنوری 2018ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ اس دوران مسلم لیگ کے کئی ارکان بلوچستان اسمبلی نے اپنی پارٹی سے بغاوت کر کے علیحدگی اختیار کر لی تو عبد القدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ منتخب کر لیا گیا۔ وہ سات جون 2018ء کو نگراں حکومت قائم ہونے تک اس عہدے پر برقرار رہے۔ اس دوران ملک کی سیاست میں بہت اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے اپنی جوڑ توڑ کی مہارت سے کام لے کر سینیٹ میں مسلم لیگ کی اکثریت کے باوجود ایک آزاد رکن صادق سنجرانی کو ایوان بالا کا چیئرمین بنوا دیا۔ اس کھیل میں تحریک انصاف کے چیئرمین نے بھی کردار ادا کیا۔ ان کے بارے میں پارٹی کے اپنے رہنمائوں نے الزام لگایا کہ انہوں نے آصف زرداری کے ساتھ مل کر چیئرمین سینیٹ کی نشست کا سودا کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 2008ء میں پیپلز پارٹی کی جو حکومت قائم ہوئی تھی، اس وقت عام تاثر یہ تھا کہ اس نے مسلم لیگ (نواز گروپ) کے ساتھ باری باری حکومت سازی کا معاہدہ کر لیا ہے۔ اس معاہدے کی تصدیق یا تردید سے قطع نظر، 2013ء کے انتخابات میں فی الواقع یہی ہوا کہ مسلم لیگ برسر اقتدار آگئی اور پیپلز پارٹی حزب اختلاف میں جا بیٹھی۔ پیپلز پارٹی اپنے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 1958ء میں جنرل ایوب خان کی کابینہ میں شمولیت کے بعد سے کئی بار وفاق اور سندھ میں برسراقتدار رہ چکی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ کے میاں نواز شریف کا خاندان بھی جنرل ضیاء الحق کے زمانے، 1977ء سے آج تک متعدد بار وفاق اور پنجاب میں حکمرانی کے مزے لوٹ چکا ہے۔ تاہم گزشتہ دس برسوں سے تحریک انصاف بھی میدان سیاست میں سرگرم عمل ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں تو پارٹی کے چیئرمین عمران خان کو سو فیصد یقین تھا کہ ان کا تبدیلی کا نعرہ رنگ لائے گا اور انہیں پاکستان کا وزیراعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن انتخابی نتائج نے ان کا یہ خواب چکنا چور کر دیا اور تحریک انصاف قومی اسمبلی میں تیسری پوزیشن حاصل کر سکی۔ البتہ خیبر پختونخوا میں وہ مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ اب نواز شریف کی نااہلی اور شریف خاندان پر کرپشن، مالی بدعنوانی، قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بیرون ملک منتقلی کے سنگین الزامات کے پس نظر میں عمران خان اپنی نئی اور ظاہری طور پر تیسری پیرانی اہلیہ کی کرامات کے ذریعے ایک بار پھر وزیر اعظم پاکستان بننے کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں۔ وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ انہیں مقتدر طبقوں کی حمایت حاصل ہے، جبکہ ذرائع ابلاغ میں ان کے حامی مبصرین بھی قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ عمران خان بطور وزیراعظم ’’آوے ہی آوے۔‘‘
اگر آج کے عام انتخابات بخیر و خوبی مکمل ہو گئے تو سیاسی مبصرین کے خیال میں مسلم لیگ یا تحریک انصاف میں سے کسی ایک کو زیادہ نشستیں حاصل ہوں گی، جبکہ پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ تاہم یہ امر یقینی ہے کہ غیبی قوتوں نے کوئی ہاتھ نہیں دکھایا تو کسی بھی جماعت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہو گی۔ اس بنا پر مخلوط وفاقی حکومت کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں، جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر تحریک انصاف کی مخلوط حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ انتخابی امیدواروں کی اہلیت سے متعلق آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ بری طرح نظرانداز کئے جانے کی وجہ سے آج کے انتخابی نتائج سے بھی ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ دھاندلی اور روپے پیسے کی ریل پیل ساری دنیا کو کھلی آنکھوں سے نظر آرہی ہے۔ پھر یہ کہ اقتدار کے ایوانوں میں ممکنہ طور پر پہنچنے والی تینوں بڑی جماعتوں کے قائدین کا کردار پوری قوم کے سامنے کھلی کتاب کی طرح موجود ہے تو ملک کا مستقبل کون اور کیسے سنوارے گا۔ ناخواندہ، سیاسی شعور سے محروم اور بے کس و بے بس عوام پاکستان کے موجودہ جمہوری و انتخابی نظام میں نااہل، بدعنوان اور اخلاق و کردار سے عاری اکثر امیدواروں کے حق میں نعرے لگانے، ان کے جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے اور اس کے نتیجے میں مزید پانچ سال تک سارے دکھ اور عذاب سہنے کے سوا کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ بدترین کارکردگی کے پیش نظر اگر تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو گئی تو وہ نہ جانے ملک کا کیا حشر کرے گی، جبکہ اس کی صفوں میں شامل نوجوان ہر جلسے جلوس کے موقع پر خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور بدتمیزی کے مرتکب نظر آتے رہے۔ دوسری طرف ان کے قائد و رہنما کے بارے میں ریحام خان کے انکشافات ایسے شرمناک مناظر پیش کررہے ہیں کہ نام ہی کا اسلامی سہی، کوئی مسلم ملک انہیں برداشت نہیں کر سکتا۔ محب وطن پاکستانی اس تصور ہی سے کانپ جاتے ہیں کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد زمام اقتدار تحریک انصاف، بالخصوص منشیات و جوا کے عادی اور کئی اخلاقی برائیوں میں ملوث عمران خان کے ہاتھوں میں چلی جائے۔ انتخابات کے نتیجے میں حکومت کسی کی بھی بنے، وہ سونے کا تاج نہیں، کانٹوں کا بستر ہو گی۔ سابقہ دو حکومتوں نے اقتصادی طور پر ملک کو بالکل کھوکھلا کر دیا ہے۔ ہمارے پاس اگلے دو ماہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی ضروری رقوم نہیں ہیں۔ اگلی حکومت کو لامحالہ آئی ایم ایف جیسے سودخور مالی اداروں کے پاس جانا پڑے گا۔ اس بار ان کی سخت شرائط میں ہمارے قیمتی اثاثوں کو گروی رکھنا شامل ہو گا۔ ایک پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری تو مبینہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر اقتدا ر ایک بار پھر ان کے سپرد کر دیا جائے تو وہ بڑی طاقتوں کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی دینے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کا پہلا سسرالی بیک گرائونڈ یہود اساس کا حامل ہے اور وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عمران خان کی مکمل پشت پناہی کے لیے بسروچشم تیار بھی ہے، جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین خود بھی لیلیٔ اقتدار کے حصول کی خاطر اپنا اور ملک و قوم کا سب کچھ دائو پر لگانے کے لیے آمادہ ہیں۔ اگر پاکستان مملکت خداداد نہ ہوتا تو ستر برسوں میں ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اسے تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ رحیم و کریم ذات الٰہی نے اسے اب تک سلامت رکھا ہوا ہے اور آئندہ بھی وہی قائم و دائم رکھنے والا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More