خود سوزی کرنے والے کزن کو بچانے کی کوشش مہنگی پڑی

0

کراچی (رپورٹ : سید علی حسن )خود سوزی کرنے والے کزن کو بچانے کی کوشش مہنگی پڑی ۔جسے اسپتال لے کر گیا ،آج اسی کے قتل کے الزام پر بیوی سمیت جیل کاٹ رہاہوں۔5ماہ سےمیرے بچے والدین کی محبت سے محروم ہیں ۔یہ باتیں ایڈیشنل سیشن جج شرقی کی عدالت میں پیشی پر آئے قیدی رب نواز نے ’’امت‘‘ کو بتائیں ۔قیدی نے بتایا کہ وہ ایئرپورٹ کے علاقے گولڈن ٹاؤن کا رہائشی اور آبائی تعلق رحیم یار خان سے ہے۔میرے 3 بچےہیں، جو اس وقت میرے بڑے بھائی کے پاس ہیں ،میں رکشہ چلا کر گزر بسر کرتا تھا ۔ 9 فروری 2018 کومیں علاقے میں پہنچا تو دیکھا کہ میری پھوپھی کے گھر کے باہر لوگ جمع ہیں اور پولیس بھی موقع پر موجودہے۔ پوچھنے پر پولیس اہلکار نے مجھے بتایا کہ ایک لڑکا آگ لگنے سے جھلس گیا ہے ،جب میں نے اندر جاکر دیکھا تو میرا کزن لیاقت علی جھلساہوا تھا میں اس کو اٹھا کر نیچے لایا اور پولیس سے کہا کہ اسے اسپتال لے کر چلو پھر ہم اسے اسپتال لےگئے، جہاں اسے طبی امداد فراہم کی گئی ۔وہاں لیاقت کے والد ین بھی پہنچ گئے ،جس کے بعد میں گھر واپس آگیا ۔ مجھے معلوم ہوا کہ لیاقت رشتے داروں کی کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا اور لڑکی والے وٹے میں اسکی بہن کا رشتہ مانگتے تھے،جس پر لیاقت کے والدین راضی نہ تھے ،جس پر لیاقت نے خودسوزی کی کوشش کی تھی ۔ اس کے والدین 11 فروری 2018 کو رحیم یار خان میں علاج کرانے کے لئے لے کر جارہے تھے ،جہاں راستے میں صادق آباد کے قریب ہی لیاقت کا انتقال ہوگیا ۔ رب نواز کا مزید کہنا تھا کہ واقعہ کے 21 دن بعد 2 مارچ 2018 کو الفلاح تھانے کی پولیس میرے گھر آئی ، مجھے اور میری اہلیہ وزیرہ بی بی کو گرفتار کرکے تھانے لے گئی ، تھانے جاکر معلوم ہوا کہ ہمیں لیاقت کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے ،کیونکہ لیاقت کے والد بہادر علی نے ہمیں مقدمہ میں نامزد کردیا تھا ، لیاقت کو میں اسپتال لے کر گیا تھا ،جس پر انہیں مجھ پر شک ہوااور انہوں نے ہم پر الزام عائد کیا ہے کہ ہم نے لیاقت سے پیسے ادھار لے رکھے تھے ،جس کی ادائیگی سے بچنے کے لئے ہم نے اسے پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی اور موقع سے فرار ہوگئے ،جو جھوٹ ہے ۔ قیدی کا کہنا ہے کہ ہم بے قصور ہیں ،جس کی گواہی پولیس کو علاقہ مکینوں نے بھی دی ہے ۔علاقہ مکینوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ جب واقعہ ہوا، اس وقت میں جائے وقوعہ پر موجود ہی نہیں تھا ،مگر پولیس نے ان کی بات بھی نہیں سنی اور ہمیں جیل بھیج دیا،گرفتاری کے بعد میری اہلیہ نے ضمانت کی درخواست جمع کرائی تھی ،جو عدالت نے مسترد کردی تھی ۔ قیدی نے بتایا کہ میں نے متوفی کے والد سے بات کی تھی اور انہوں نے صلح کے لئے مجھ سے 2 لاکھ روپے مانگے ہیں ،جو میرے پاس نہیں ہیں ،کیونکہ رکشہ چلا کر میں دن میں 800 روپے یا کبھی 500 ہی بچتے تھے ،جس کی وجہ سے پیسے جمع نہیں کرسکا ،کیس عدالت میں زیر سماعت ہے ،جہاں گواہوں کو بلایا گیا ہے ، میرے بچے بڑے بھائی شہزاد کے پاس رہ رہے ہیں ۔ قیدی کا کہنا تھا کہ نیکی کرنا مہنگا پڑ گیا ہے ،کزن کی زندگی بچانے کے لئے اسے اسپتال لے کر گیا ،مگر آج اسی کے قتل کے مقدمہ میں زندگی خراب کر بیٹھا ہوں ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More