عبدالمالک مجاہد
اس مرتبہ ہینڈ کیری کو بطور سامان جمع کروانے کا تجربہ کامیاب رہا۔ میں 26جون2018ء کی صبح 6بجے کی فلائٹ سے جیزان کے لیے روانہ ہو رہا تھا۔ کوشش کے باوجود ہینڈ کیری بھاری ہو گیا۔ ہر چند کہ میں پہلی مرتبہ جیزان کے لیے سفر کر رہا تھا، مگر اس کے باوجود مجھے معلوم تھا کہ جیزان ایئر پورٹ چھوٹا ہو گا۔ وہاں سیڑھی کے ذریعے ہی جہاز سے نیچے اترنا ہوگا۔ سفر کے دوران ہاتھ میں بھاری بھرکم بیگ ہو تو اسے سنبھالنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ چھوٹے ایئرپورٹ کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ادھر آپ ہال میں داخل ہوئے، ادھر آپ کا سامان پہنچ جاتا ہے۔ جیزان سعودی عرب کے جنوب مغرب میں آخری کونہ اور بندرگاہ ہے۔ اس کی حدود یمن کے ساتھ ملتی ہیں۔ دونوں ملک اس بندرگاہ کے ذریعے خوب تجارت کرتے ہیں۔ واقعی جب میں ہال میں داخل ہوا تو سامان بیلٹ پر گھوم رہا تھا۔ میں نے اپنا ہینڈ کیری اٹھایا اور باہر کا راستہ لیا۔ سامنے چند کرسیاں خالی پڑی تھیں۔ ایک پر میں بھی بیٹھ گیا۔ جیب سے فون نکالا اور مفتی جیزان شیخ محمد بن شامی بن مطاعن العدوی القرشی کو فون ملانا شروع کیا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد کال مل گئی۔ شیخ کی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی: عبد المالک پہنچ گئے؟ میں نے انہیں آٹھ بجے کا وقت دیا تھا اور آٹھ بجنے میں ابھی دس منٹ باقی تھے۔ فرمانے لگے: انتظار کرو، میں خود ایئر پورٹ پہنچ رہا ہوں۔
میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ شیخ خود ایئر پورٹ پر لینے کے لیے تشریف لائیں گے۔ میرا خیال یہ تھا کہ وہ مجھے ایئر پورٹ پر اترنے کے بعد لوکیشن ارسال کریں گے اور میں ٹیکسی لے کر ان کے ہاں پہنچ جاؤں گا یا زیادہ سے زیادہ وہ اپنا ڈرائیور بھیج دیں گے۔ یہ عنایت اور محبت کہ شیخ خود تشریف لائیں گے، یہ میرے گمان سے کہیں اونچی بات تھی۔ چند منٹ کے بعد میرے موبائل پر شیخ کی آواز آئی: عبد المالک! سڑک پر آ جاؤ، ہم باہر کھڑے ہیں۔ جلد ہی میں شیخ محمد کی گاڑی کے پاس تھا۔ میں نے سامان گاڑی کی ڈگی میں رکھا۔ ایک بڑے متواضع شخص کو سرکاری گاڑی میں اگلی سیٹ پر بیٹھے دیکھا، جن کے سر اور داڑھی کے بال مکمل سفید ہو چکے تھے۔ میں پیچھے بیٹھ گیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر ان کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ شیخ مختلف سوالات کرنے لگے: سفر کیسا رہا؟ سفر کے دوران کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟ اچانک گاڑی ایک خوبصورت ریسٹورنٹ کے سامنے جا رکی۔ شیخ صاحب فرمانے لگے: چلئے پہلے ناشتہ کرتے ہیں۔ یہ ایک یمنی ریسٹورنٹ تھا، مگر بڑا خوبصورت اور صاف ستھرا تھا۔ ریسٹورنٹ میں میرے لیے عدنی چائے باعث کشش تھی۔ مختلف ڈشوں کے ساتھ بڑی بڑی روٹیاں جن کے آٹے میں گھی ملا ہوا تھا۔ میں انہیں پورا پراٹھا تو نہیں کہوں گا نیم پراٹھا جو تنور میں پکا ہوا تھا۔ اس پر کلونجی کا چھڑکاؤ کر کے اسے طبی اعتبار سے مفید بنایا گیا تھا۔
قارئین کرام! اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، میں آپ کو 28 رمضان المبارک کے دن کی اہم بات بتاتا ہوں۔ ریاض کی مسجد عبد اللہ الراجحی میں گزشتہ آٹھ نو برسوں سے اعتکاف کرتا چلا آ رہا ہوں۔ اعتکاف میں آنے سے پہلے میں قرآن کریم کی تلاوت کا ہدف لے کر آیا تھا، جو الحمد للہ 28 رمضان کو پورا ہو گیا۔ اب میں نے مسجد کی شیلف میں مختلف کتابوں کو دیکھنا شروع کیا۔ ایک شیلف میں پڑی ہوئی سات جلدوں پر مشتمل تفسیر نظر آئی۔ میں نے ایک جلد اٹھائی اور اس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ پہلی ہی نظر میں تفسیر کا انداز بڑا منفرد اور عمدہ لگا۔ میں نے کرسی پر بیٹھ کر آرام سے پڑھنا شروع کر دیا۔ پہلے آیت مبارکہ کی مختصر، مگر نہایت سادہ انداز میں تشریح اور اس کے بعد اس آیت سے ملنے والے دروس و اسباق کا ذکر تھا۔ مجھے بطور خاص یہ دروس و اسباق بہت پسند آئے۔ بڑے دل نشیں انداز میں نمبر وار اس آیت کا مفہوم بیان کیا گیا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق یہ تفسیر عام لوگوں کے لیے بڑی مفید ہے۔ اس کا انداز بیان عام پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ہے۔ برادر سعود کا تعلق قصیم کے علاقے سے ہے، وہ ایک سکول میں ٹیچر ہیں۔ ہمارے ساتھ کئی برسوں سے اعتکاف کرتے چلے آ رہے ہیں۔ میں نے انہیں کثرت سے مطالعہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس نوجوان کے ہاتھ میں قلم ہوتا ہے۔ کتاب پڑھتے وقت خاص اور اہم باتوں پر نشان لگاتے جاتے ہیں۔ میں نے ایک جلد سعود کو پکڑاتے ہوئے کہا: شیخ! تھوڑی دیر کے لیے اس تفسیر کو پڑھیں اور بتائیں کہ اگر اس کا اردو یا انگلش میں ترجمہ کر دیا جائے تو لوگوں کے لیے کتنی مفید ہوگی۔ تھوڑی دیر کے بعد سعود کا تبصرہ بھی مل گیا کہ یہ تفسیر عامۃ الناس کے لیے نہایت مفید ہے۔ میں نے تفسیر کے کچھ صفحات کی تصویر لی اور انہیں لاہور میں دارالسلام کی علمی کمیٹی کے ہیڈ محترم عارف جاوید عارفی کو بھجوا دیا۔ ساتھ ہی پیغام ریکارڈ کروا دیا کہ اگر اس تفسیر کا ترجمہ اردو یا انگلش زبان میں کر دیا جائے تو آپ کی رائے کیا ہوگی؟ عید کے بعد مجھے تفسیر کے متعلق پیغامات مل گئے کہ یہ ایک عمدہ تفسیر ہے اس کا ترجمہ ہونا چاہیے۔ میں نے اس تفسیر کے مؤلف شیخ محمد شامی سے رابطہ کیا۔ ان کو اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔ سوچ و بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے مؤلف سے خود جا کر ملنا چاہیے۔ یہ بڑا منصوبہ ہے اور جب تک ہم آمنے سامنے بیٹھ کر تفاہم نہیں کرتے، اس وقت تک اس منصوبے کا آغاز مشکل ہے۔
قارئین کرام! اب آپ کو پتہ چل گیا ہو گا کہ میں نے سارے کام چھوڑ کر دو دن کے لیے جیزان کا سفر کیوں کیا۔ شیخ محمد بن شامی کا تعلق سیدنا عمر فاروقؓ کے قبیلے بنو عدی سے ہے۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو العدوی القُرشی لکھتے ہیں۔ یقینا یہ بڑے اعزاز کی بات ہے۔ جیزان کے دارالافتاء کا دفتر کوئی بڑا نہیں، تاہم بڑا خوبصورت ہے۔ جیزان شہر بڑا نہیں، نہ ہی یہاں پر بڑی بلند وبالا عمارتیں ہیں۔ شہر میں رش بھی نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ بڑے ہی حلیم الطبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والے ہیں۔ جب ہم شیخ صاحب کے دفتر پہنچے تو میں دیکھا کہ جو بھی ان کے دفتر میں داخل ہوتا، شیخ صاحب کے سر پر بوسہ دیتا۔ حتیٰ کہ پولیس کا سارجنٹ جو دارالافتاء اور شیخ صاحب کی سیکورٹی پر مامور تھا، اس نے بھی شیخ صاحب کے سر کو بوسہ دیا۔
عربوں کے دفاتر یا گھروں میں جائیں تو قہوہ، چائے تو عام سی بات ہے۔ شیخ صاحب کا ڈرائیور زید بن ناصر ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔ اس نے میرے ہینڈ کیری کو اٹھانے اور گاڑی پر چڑھانے کی ذمہ داری لے لی تھی۔ اس کا تعلق بھی ایک سعودی قبیلے سے ہے۔ دو دن زید نے میری خوب خدمت کی۔ حق تعالیٰ اسے اجر عظیم عطا فرمائے۔
میں نے بہت سارے دفاتر دیکھ رکھے ہیں۔ شیخ صاحب کا دفتر چھوٹا، مگر نہایت خوبصورت تھا۔ بڑی نفاست سے فرنیچر کو سجایا گیا تھا۔ شیخ صاحب نے مجھے بتایا کہ سعودی عرب میں پانچ مفتی ہیں۔ ان میں مفتی اعظم تو شیخ عبد العزیز آل الشیخ ہیں، جو ریاض میں بیٹھتے ہیں۔ ان کے علاوہ سعودی عرب کے چار صوبوں میں ایک ایک مفتی ہیں۔ صوبہ جیزان کے مفتی ہمارے میزبان شیخ محمد شامی ہیں۔ چھبیس سال تک اسی علاقے میں جج کے عہدے پر فائز رہے۔ جیزان سے اگر ہم شمال کی طرف سفر کریں تو ساٹھ ستر کلومیٹر کے فاصلے پر ’’بیش‘‘ نامی قصبہ آتا ہے۔ شیخ صاحب اسی قصبے میں پیدا ہوئے۔ فرمانے لگے: میرے والد شامی بن شیبہ اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ ہمارا خاندان کم و بیش 500 سال سے اس علاقے میں قضاء کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ میں نے ان کو سات جلدوں پر مبنی خوبصورت تفسیر لکھنے پر مبارکباد پیش کی اور ان سے پوچھا کہ کیا مجھے بتائیں گے کہ انہوں نے تفسیر کا منفرد اسلوب کیسے اپنایا ہے؟ شیخ صاحب کے پاس کتنے ہی علمی اعزازات ہیں، وہ واقعی بہت بڑے عالم فاضل شخصیت ہیں۔ اگر انہیں اس علاقے کا مفتی بنایا گیا ہے تو ایسے ہی نہیں بنایا گیا۔ ان کے اندر وہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں، جو کسی عالم ربانی اور مفتی کے اندر ہونی چاہئیں۔
شیخ صاحب نے بتایا کہ حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس تفسیر کو غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ مختلف ممالک کے علمی اداروں میں اس تفسیر کو پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسی تفسیر ہے جو بالکل نئے اور منفرد انداز میں لکھی گئی ہے۔ میں نے تفسیر میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ کوئی حدیث ضعیف یا موضوع درج ہونے نہ پائے۔ تمام تر احادیث صحیح یا حسن درجے کی ہیں۔ تفسیر کی زبان نہایت آسان اور عام فہم ہے۔ میں چاہتا تھا کہ قرآن پاک اور سیرت پاک کی عملی تطبیق کی جائے۔ اس مقصد کے لیے یہ تفسیر اور سیرت پاک کے موضوع پر سیرت النبیؐ لکھی ہے۔
قارئین کرام! میں نے منگل اور بدھ دو دن شیخ صاحب کے ساتھ گزارے۔ اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھا ۔ میری خوش قسمتی کہ انہوں نے حکم صادر فرمایا: عبد المالک! تم ہوٹل میں نہیں، بلکہ میرے گھر میں قیام کرو گے۔ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں سے ملاقاتیں کی ہیں، مگر وہ شخصیات جن سے میں بہت متاثر ہوا اور کم وقت میں استفادہ کیا، ان میں ایک شخصیت اس مفسر قرآن کی بھی ہے۔
یوں تو مفتی صاحب سے بہت ساری چیزیں سیکھنے کا موقع ملا، مگر چند اہم اشیاء جو میں نے ان سے سیکھیں، ان کا تذکرہ کروں گا۔ قرآن کریم کے نزول کا آغاز غار حراء میں ’’اقرائ‘‘ کے لفظ کے ساتھ ہوا۔ رب العالمین نے ابن آدم کو علم کی بدولت شرف بخشا۔ وہ لوگ جو علماء ہیں، ان کو معاشرے میں اعلیٰ مقام و مرتبہ ان کے علم کی وجہ سے ہی ملا۔ شیخ صاحب نے مجھے بطور خاص نصیحت کی کہ میں خود کو علم سے جوڑے رکھوں۔ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ میرے دن کا زیادہ وقت کتابوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ میں ان کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا: شیخ! آپ نے سات جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر کب اور کتنے عرصہ میں مکمل کی؟ فرمانے لگے: یہ اب صحیح طور پر تو یاد نہیں کہ اسے لکھنے میں کتنا وقت لگا، مگر یہ بات ضرور ہے کہ میں رات کا بیشتر حصہ جاگتا رہتا اور لکھتا رہتا، رات کو بہت کم سوتا تھا۔ رات کو سکون سے لکھتا۔ عموماً فجر کی نماز کے بعد سوتا اور دفتر جانے سے پہلے پھر اٹھ جاتا۔ میں نے پوچھا: آپ کے بیوی بچے آپ کی لکھائی میں رکاوٹ نہیں بنتے تھے۔ واضح رہے کہ شیخ کے پاس چار بیویاں ہیں۔ فرمانے لگے: نہیں! بچوں کی مائیں ان کو سنبھال لیتی تھیں۔ مجھے لکھنے پڑھنے کا شروع سے شوق تھا۔ اس لیے گھر کی ذمہ داریاں علمی کاموں میں رکاوٹ نہیں بنیں۔ انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ اگر تم دین و دنیا میں کامیابی اور عزت چاہتے ہو تو پھر خوب خوب علم حاصل کرو۔ (جاری ہے)
Next Post