یورپیوں نے نئے سمندری راستے ڈھونڈ نکالے(آخری حصہ)

0

بلند لہروں اور طوفان کے باعث جہاز کے اوپر نیچے ہونے والے عمل کو ’’پائونڈنگ‘‘ اور ’’ پچنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف جہاز کے لئے بلکہ جہاز چلانے والوں کے لئے بھی انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے … سی سکنیس کی وجہ سے الٹیاں اور ڈپریشن نیز اس کے ساتھ جہاز کا کام مزید بڑھ جاتا ہے۔ ایک عام آدمی کی سمجھ میں شاید نہ آ سکے، لیکن انجینئرنگ کے طلباء کے لئے چند سطریں تحریر کرتا چلوں کہ بگڑے ہوئے سمندر میں جب جہاز اٹھنے والی لہروں پر بلند ہو کر یکایک دھڑام سے نیچے گرتا ہے تو جہاز کے بیرونی Structure کو نقصان پہنچتا ہے۔ جہاز کا پروپیلر جو کہ سمندر کے اندر ایک منٹ میں 125 سے 130 بار گھومتا ہے … جہاز کا پچھلا حصہ اوپر اٹھنے پر جیسے ہی پروپیلر پانی سے نکل کر ہوا میں آتا ہے، اس کی رفتار یکدم بڑھ کر 200 تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ جب تک انجن کا ’’گورنر‘‘ اس کی رفتار کم کرے، ان چند سیکنڈ کے دوران پروپیلر کی بڑھی ہوئی رفتار… دیگر الفاظ میں انجن کے پسٹنوں کی بڑھی ہوئی Reciprocating motior جہاز کے انجن کو اس قدر overload کر دیتا ہے کہ ان حالات میں Relif valve تو اٹھتا رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی پسٹن یا سلنڈر اس قدر پریشر برداشت نہ کرتے ہوئے کریک ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے خراب موسم میں ہمیں جہاز کو کسی قریبی بندرگاہ تک لے جانے میں بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔
جہاز کے اوپر نیچے ہونے کے باعث جہاز کے مین انجن یا جنریٹرز کو تیل (Lubricating oil) اور پانی پہنچانے والے پمپ Suction چھوڑ دیتے ہیں۔ انجن کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے پانی اور اسے چکنا رکھنے کے لئے آئل کی سپلائی چند سیکنڈ کے لئے بھی بند ہو جائے تو مین انجن یا جنریٹر بند ہو جاتا ہے۔ مین انجن کے بند ہو جانے پر جہاز ڈرفٹ ہو کر لہروں اور ہوائوں کے رحم و کرم پر ہچکولے کھانا شروع ہو جاتا ہے۔ جنریٹر بند ہو جائے تو گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بلوئر بند ہو جاتے ہیں اور گرمی Suffocation میں دم گھٹنے لگتا ہے۔ جنریٹر اور جہاز کے انجن کو دوبارہ ری اسٹارٹ کرنے میں کافی دقت پیش آتی ہے۔ تاخیر ہونے پر آئل سرد ہو جاتا ہے اور انجن کے اسٹارٹ ہونے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کیپ آف گڈ ہوپ کا سمندر خط استوا سے کافی نیچے ہے۔ نومبر اور دسمبر میں وہاں موسم گرما ہوتا ہے اور ان دنوں میں بھی وہاں کافی سردی ہوتی ہے، لیکن جون، جولائی، اگست میں تو یوں سمجھئے کہ سردی ہر چیز کو جما کر رکھ دیتی ہے۔ ایسی سردی میں تارکول جیسے خام Crude oil کو سلنڈر میں جلانے کے گرم کرنا اور اس کی Viscocity کو کم کر کے اسے رقیق صورت میں لانا ایک مسئلے سے کم نہیں ہوتا۔
جو پمپ سمندر سے پانی کھینچ کر انجنوں کو ٹھنڈا رکھتے ہیں، ان کے فلٹر سمندر کی اتھل پتھل کے باعث مچھلیوں (خاص طور پر جیلی مچھلی) سمندری حشرات اور گھاس کی وجہ سے بار بار چوک ہو جاتے ہیں۔ انہیں ہر بار کھول کر صاف کرنا بہت پریشان کرتا ہے۔ خراب موسم اور بگڑے ہوئے سمندر میں دوسرے بھی کئی مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ جب یہ مسائل آج کے جہاز چلانے والوں کو ادھ مُوا کر دیتے ہیں تو ماضی میں، جب چوبی بیڑے محض بادبانوں کے سہارے چلتے تھے۔ ان جہاز رانوں کا کیا حشر ہوتا ہو گا! اس وقت کے جہاز راں ’’کیپ آف گڈ ہوپ‘‘ والے سمندری حصے کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے۔ جو بھی اس کے قریب جاتا، پھر اس کی کہانی سنانے والا کوئی نہ ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ پندرہویں صدی کے آخر تک دنیا کا صحیح نقشہ بھی دستیاب نہیں تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ براعظم افریقہ انسانی چہرے سے مشابہ ہے۔ اس کے دائیں گال پر چلتے ہوئے نیچے ٹھوڑی کے مقام سے مڑ کر بائیں گال تک پہنچا جا سکتا ہے۔ جہاں ممباسا، زینزیبار، میلندی جیسی تاریخی بندرگاہیں واقع ہیں، پھر وہاں سے مشرق کی سمت رخ کیا جائے تو انڈیا کے کنارے تک پہنچا جا سکتا ہے۔
ان لوگوں کو خشکی کے راستے تو معلوم تھے کہ یورپ سے ترکی، ایران اور شاہراہ ریشم کے ذریعے انڈیا پہنچا جا سکتا ہے۔ مارکوپولو جیسے سیاح تیرہویں صدی میں یورپ سے انڈیا، چین اور جاپان تک جا پہنچے تھے، لیکن ان کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ ان علاقوں تک سمندری راستے کے ذریعے بھی پہنچا جا سکتا ہے یا نہیں؟ وہ یہی سمجھتے رہے کہ شاید بحیرئہ ہند بھی میڈیٹرینن اور بحر اسود کی طرح تالاب جیسا ہے۔ بعض یورپین کو شک تھا کہ شاید ان کا اٹلانٹک سمندر کہیں جا کر بحیرہ ہند سے ملتا ہے، لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا یہ ’’ملاپ ‘‘ کہاں ہوتا ہے۔
ایک جانب کیپ آف گڈ ہوپ کی دہشت ان پر طاری تھی۔ اس مقام پر جا کر ان کے بیڑے غرق ہو جاتے تھے، وہ آگے نہیں بڑھ پاتے تھے۔ دوسری طرف مغرب میں جاتے تھے تو پانچ چھ دنوں کے سفر کے بعد بھی انڈیا تو کیا انہیں کوئی کنارہ نظر نہیں آتا تھا۔ نتیجۃً وہ خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ آتے تھے کہ کہیں راشن، پانی نہ جواب دے جائے۔ ان ایام میں چوبی کمزور جہاز کنارے کنارے سفر کرتے تھے۔ ہمارے ہاں لاری بندر یا دیبل سے روانہ ہوتے تو گجرات اور مالا بار کے کنارے کنارے چلتے ہوئے سیلون پہنچتے تھے۔ ان حالات میں سمندر کے کنارے والے یورپی ملکوں، انگلینڈ، اسپین، ڈنمارک، ہالینڈ، پرتگال، اٹلی کے ماہر ناخدائوں کی بھی جان جاتی تھی، لیکن بعد میں پندرہویں صدی کے آخر میں ایک طرف تو پرتگالی برتومیو اور واسکو ڈی گاما کیپ آف گڈ ہوپ کو عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور دوسری جانب اسپین کے بادشاہ کی طرف سے روانہ کئے گئے اطالوی کیپٹن کولمبس نے اٹلانٹک سمندر عبور کر کے نئی دنیا ’’امریکا‘‘ کی خبر دی۔
یورپین اس قسم کے خطرناک سفر کرنے پر کیوں مجبور تھے…؟ یہ اوائلی دور کے ناخدا کون تھے اور وہ کس طرح انڈیا اور امریکا تک پہنچ گئے… ؟ ہم یہ احوال آئندہ کسی مضمون میں بیان کریں گے۔ یہاں کچھ باتیں اور اٹلی یورپی سیاح مارکو پولو کے متعلق ضروری سمجھتا ہوں جو خشکی کے راستے انڈیا اور چین پہنچا۔
یورپ سے انڈیا اور چین تک مارکو پولو سے پہلے کچھ یورپی آتے رہے ہیں، لیکن وینس کا باشندہ مارکو پولو پہلا شخص تھا، جس نے اپنے سفر کی روداد قلمبند کی۔ اس طرح اس نے یورپین کو انڈیا اور چین کی معلومات فراہم کی۔ اس نے تمام تفصیلات تحریر کیں کہ یہ مشرقی ملک کہاں واقع ہیں۔ وہاں تک خشکی کے راستے کس طرح پہنچا جا سکتا ہے اور اس کے پورے 220 سال بعد سمندر کے راستے انڈیا پہنچنے کی راہ پرتگالی ناخدا واسکو ڈی گاما نے دکھائی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More