اعداد وشمار کی فریب کاریاں (بارہویں قسط)

0

ترجمہ:عباس ثاقب
سروے کمپنیاں تجارتی میدان کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی جگہ بنا چکی ہیں۔ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی فرمائش پر ایسے سروے جاری کرتی ہیں، جو دراصل اس جماعت کی حمایت میں جاتے ہیں۔ ظاہر ہے سروے کمپنیاں اس کام کا بھاری معاوضہ لیتی ہیں۔ اعداد و شمار کی اس جادوگری سے پردہ سب سے پہلے ڈیرل ہف نے اٹھایا تھا۔ ان کی کتاب How to Lie with Statistics اس موضوع پر مستند ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے تیس سے زائد انگریزی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ موجودہ الیکشن کے تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ (ادارہ)
٭٭٭٭٭
رائے طلبی کے اعدادوشمار کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ ہمیشہ حتمی نتائج کی نشان دہی نہیں کرتے، یہ محض ایک مخصوص گروہ کے خیالات و جذبات کے عکاس ہوتے ہیں۔ جب کہ بعض اوقات محض اضافی معلومات کی وجہ سے بھی غلط تاثر پیدا ہوسکتا ہے۔
1952ء میں کیلی فورنیا کی سینٹرل ویلی میں دماغ کی سوزش (Encephalitis) کے کیسز کے تین گنا واقعات کی اطلاعات سامنے آئیں۔ بہت سے والدین گھبراہٹ کے عالم میں اپنے بچے دوسرے شہروں میں عزیزوں کے پاس بھجوا دیئے۔ لیکن سال کے آخر میں اکٹھے ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق اس مرض کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد میں کوئی خاص اضافہ سامنے نہیں آیا۔
ہوا یہ تھا کہ طویل عرصے سے موجود اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ریاست اور وفاق کے طبی افراد کی بھاری تعداد میدان میں اتری تھی اور ان کی کوششوں کے نتیجے میں کم سنگینی والے زیادہ مریضوں کا ریکارڈ جمع ہوا تھا، جنہیں اس سے پہلے نظر انداز کردیا جاتا تھا، بلکہ اکثر صورتوں میں شناخت بھی نہیں ہوپاتی تھی۔
یہاں یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بعض اوقات کوئی فرد یا افراد اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کی تکمیل یا کسی درپردہ مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے بھی کسی غلط تاثر کو ہوا دے سکتے ہیں اور مبالغہ آرائی یا غلط بیانی کا سہارا لے کر معاملے کی شدت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ نیویارک کے صحافیوں لنکن اسٹیفنز اور جیکب بائیز نے ایک مرتبہ شہر میں جرائم کی لہر پیدا کی تھی۔ شہر میں جرائم کی خبروں کی تعداد اور انہیں بڑے بڑے حروف والی چیختی چنگھاڑتی سرخیوں اور اخبار میں بڑی جگہ پر شائع کرنے کا تناسب اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ عوام کی طرف سے پے درپے ان جرائم پر سخت ایکشن لینے کے مطالبات کیے جانے
لگے۔ جس کے نتیجے میں ریفارم پولیس بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے تھیوڈور روزویلٹ کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ تاہم اس نے صرف اخبار مالکان سے عوام میں بلاوجہ خوف وہراس پھیلانے کی شکایت کرکے ان دو رپورٹرز کی چھٹی کراکے جرائم کی اس فرضی لہر کا خاتمہ کردیا تھا۔ ان تمام جرائم کے طوفان کی ایک سادہ وجہ یہ تھی کہ ان دونوں رپورٹرز کی باہم مقابلے بازی اور ان کی دیکھا دیکھی باقی رپورٹرز کی طرف سے حقیقی اور فرضی جرائم کھودنے کی دوڑ شروع ہوگئی تھی، جب کہ پولیس کے دفتری ریکارڈ کے مطابق جرائم کی شرح میں قطعاً اضافہ نہیں ہوا تھا۔
اسی طرح ایک اخباری مضمون میں انکشاف کیا گیا ’’پانچ سال سے زیادہ عمر کے برطانوی باشندے سردیوں میں ہر ہفتے اوسطاً1.7 مرتبہ اور گرمیوں میں ہر ہفتے اوسطاً2.1 مرتبہ گرم پانی سے بھرے ٹب میں لیٹ کر نہاتے ہیں۔‘‘ جب کہ یہی اخبار مزید انکشاف کرتا ہے ’’برطانوی خواتین سردیوں میں ہر ہفتے اوسطاً 1.5 مرتبہ اور گرمیوں میں اوسطاً2.0 مرتبہ غسل کرتی ہیں۔‘‘ اس خبر کے لیے منسٹری آف ورک کے ’’ہاٹ واٹر سروے‘‘ کو ذریعہ بنایا گیا ہے، جنہوں نے 6,000 نمائندہ برطانوی گھرانوں کا سروے کرکے یہ نتائج اخذ کیے تھے۔
یہ سیمپل نمائندہ بتایا گیا ہے اور نتائج کو درست ثابت کرنے کے لیے سیمپل کا حجم بھی معقول ہے، لیکن سان فرانسسکو کرانیکل نے اس خبر کو نہایت دلچسپ سرخی کے ساتھ شائع کیا ’’برطانوی مرد، خواتین کے مقابلے میں زیادہ نہاتے ہیں!‘‘ لیکن اس سارے معاملے میں سب سے بڑی گڑبڑ یہ ہے کہ برطانوی وزارت کو صرف یہ معلوم ہوا تھا کہ لوگوں نے کتنی بار نہانے کا بتایا، یہ کوئی نہیں جان سکتا کہ لوگ ’’واقعی‘‘ کتنی بار نہاتے ہیں۔ اگر کوئی اس قدر ذاتی ہو کہ اس میں برطانیہ جیسے روایت پسند ملک کی غسل کرنے کی پوری روایت شامل ہو، تو کہنے اور کرنے کا فرق بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔ مردوں سے کہیں خواتین سے یہ سچ اگلوانا کہ وہ غسل سے کتراتی ہیں، حقیقتاً کسی دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔
جب اعداد و شمار لوگوں کی کہی ہوئی باتوں پر مبنی ہوں تو بہت سی عجیب و غریب باتیں نمودار ہو جاتی ہیں، خواہ ایسے اعداد و شمار بظاہر معروضی حقائق محسوس ہو رہے ہوں۔ مردم شماری کی رپورٹس چونتیس یا چھتیس سال کے مقابلے میں پینتیس سال عمر کے زیادہ افراد کی عکاسی کرتی ہیں ۔ اسی طرح عمر کا یقینی تعین نہ ہو پانے کی صورت میں عموماً پانچ سے تقسیم ہونے والے اعداد میں امکانی عمر بتانے کا رجحان عام زیادہ دیکھنے میں آتا۔
(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More