ترجمہ:عباس ثاقب
اعداد و شمار کے ذریعے فریب کاری کے طریقے سمجھنے کے لیے ایک بہترین مثال پر غور کریں۔ اگر آپ بینک سے چھ فی صد سالانہ شرح سود پر ایک سو ڈالر مساوی ماہانہ قسطوں میں واپسی کی بنیاد پر قرض لیں تو آپ کو اس رقم کے استعمال پر تقریباً تین ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ لیکن چھ فی صد شرح والا ایک اور قرض، جسے بعض اوقات 100 ڈالر پر 6 ڈالر کہتے ہیں، آپ کو اس سے دگنے میں پڑ سکتا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے، جسے گاڑیوں کے لیے قرضہ دینے والے اکثر بینک استعمال کرتے ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں چکرا دینے والا معاملہ لگتا ہے ناں؟
اس میں نکتے کی بات صرف یہ ہے کہ قرضے کی پہلی والی قسم میں آپ کو پورے سال 100 ڈالر پر 6 ڈالر سود ادا نہیں کرنا پڑتا، کیوں کہ چھٹے ماہ تک آپ ان 100 ڈالر میں سے آدھی رقم لوٹا چکے ہوتے ہیں۔ جب کہ جب آپ سے 100 ڈالر پر 6 ڈالر یا کل رقم کا چھ فی صد چارج کیا جائے تو آپ حقیقتاً ایک سال کے لیے بارہ فی صد سود ادا کرتے ہیں۔
1952ء اور 1953ء میں فریزر فوڈ پلانز خریدنے والے غیر محتاط افراد کے ساتھ اس سے بھی برا ہوا۔ انہیں چھ فی صد سے بارہ فی صد تک شرح بتائی گئی تھی۔ یہ سننے میں سود لگتا ہے، لیکن دراصل ہے نہیں۔ یہ فی ڈالر اضافی رقم تھی اور اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ اس کی میعاد اکثر ایک سال نہیں، بلکہ چھ ماہ ہوتی تھی۔ اب اگر آپ 100 ڈالر پر 12 ڈالر کی شرح سے باقاعدگی سے ادائیگی کریں، تو چھ ماہ کی مدت میں یہ 48 فی صد شرح سود بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خریداروں کی بہت بڑی تعداد نادہندہ ہوئی اور ایسے بہت سے فوڈ پلانز ختم ہوگئے۔
امریکا کے ایک سرکاری تحقیقاتی ادارے کے اہل کار مورس ہینسن 1948ء کے صدارتی انتخابات کے بارے میں گیلپ کی پیش گوئی کو ’’انسانی تاریخ میں اعداد وشمار کی سب سے بڑی غلطی‘‘ کہتے ہیں، تاہم اگر ملک بھر میں مستقبل کی آبادی کے تعین کے لیے سب سے کثرت سے استعمال کیے جانے والے ان تخمینوں کا تجزیہ کریں، جو ملک بھر میں تفنن کا سبب بنتے ہیں، تو گیلپ کا سروے انتہائی معتبر لگے گا۔ 1938ء میں ان گنت ماہرین پر مشتمل ایک صدارتی کمیشن نے شبہ ظاہر کیا کہ امریکا کی آبادی شاید ہی چودہ کروڑ ہو پائے، جب اس سے صرف بارہ برس بعد ہماری آبادی بارہ کروڑ سے تجاوز کرچکی تھی۔
یہی نہیں، ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ایسی نصابی کتب شائع ہو چکی ہیں اور ابھی تک کالجوں میں موجود ہیں، جن میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ امریکا کی آبادی کی زیادہ سے زیادہ تعداد 15 کروڑ سے زائد نہیں ہوگی اور یہ قوم 1980ء کے لگ بھگ ان اعداد کو چھو پائے گی۔ اس ہولناک حد تک کم تخمینے اور مفروضے پر مبنی ایک رجحان بغیر کسی تبدیلی کے جاری رہے گا۔ ایسے ہی ایک مفروضے کا ایک صدی پہلے بالکل مختلف سمت میں نتیجہ نکلا تھا، جس کے مطابق 1790ء سے1860ء تک آبادی میں اضافے کی شرح یکساں رہے گی۔ یاد رہے کہ کانگریس سے اپنے دوسرے خطاب میں ابراہم لنکن نے پیش گوئی کی تھی کہ 1930ء میں امریکا کی آبادی251,689,914 تک پہنچ جائے گی۔
بہت سے اعداد و شمار ذرا سی توجہ سے ہی احمقانہ لگتے ہیں۔ مثلاً ہارپر جریدے میں شائع شدہ ایک مضمون بتاتا ہے:
’’ایک مثال پیشاب کے امراض کے ایک مشہور ماہر کے پیش کردہ اعداد وشمار ہیں کہ امریکا میں پروسٹیٹ گلینڈ کے کینسر کے 80 لاکھ مریض موجود ہیں، جس کا مطلب یہ ہے امریکا میں پروسٹیٹ گلینڈ کے کینسر کے خطرے کی زد میں آنے والی عمر کے ہر امریکی میں سے 1.1 پروسٹیٹ گلینڈ کے کینسر کا شکار ہے۔ ایک اور مثال اعصاب کے امراض کے معروف معالج کا یہ تخمینہ ہے کہ ہر بارہ امریکیوں میں ایک مائیگرین کے مرض میں مبتلا ہے۔ چوں کہ سر درد کے دائمی مریضوں میں سے ہر تیسرا مائیگرین کے نتیجے میں اس عذاب سے دوچار ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر چوتھا شخص مائیگرین کا مریض ہے۔ اعصاب کی بیماری Multiple Sclerosis کے مریضوں کی تعداد250,000 ایسے ہی اعداد وشمار ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ امریکا میں اموات کے اعداد وشمار سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں اس مفلوج کر دینے والی بیماری کے کیسز کی تعداد تیس سے چالیس ہزار سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ (ختم شد)
Prev Post
Next Post