نئی حکومت اور سنگین چیلنجز

0

نئی حکومت اور سنگین چیلنجز
عام انتخابات 2018ء کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ جیتنے والے آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر وہ وفاق میں بہ آسانی حکومت بنا سکتی ہے۔ مگر متحدہ مجلس عمل، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگا کر انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور نائب امیر سراج الحق چونکہ اپنی آبائی نشست بھی ہار چکے ہیں۔ اس لئے انہوں نے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کیلئے گزشتہ روز آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کی تھی۔ اے پی سی کے بعد ازسر نو انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔ الیکشن سے قبل ہی پری پول رگنگ کے الزامات سامنے آئے تھے۔ دوسری جانب یورپی یونین کے مبصرین نے بھی انتخابات کی شفافیت کو مشکوک قرار دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جس سست رفتاری کے ساتھ نتائج کا اعلان کیا گیا، اس سے بھی شبہات جنم لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے روز ہی رات دو بجے تک تمام نتائج جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مگر تیسرے روز بھی بعض حلقوں کے حتمی نتائج کا اعلان نہیں ہو سکا تھا۔ اس لئے حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ سے پہلے ضروری ہے کہ جن حلقوں میں دھاندلی کا الزام ہے، وہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی جائے اور تحقیقات کرا کے عوامی مینڈیٹ چرانے کے جرم میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ورنہ مشکوک مینڈیٹ کے ساتھ برسر اقتدار آنے والی حکومت کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہوگا اور ایسی حکومت کیلئے ملک کو درپیش بڑے چیلنجز سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں اگر دو ہزار تیرہ کے انتخابات کی طرح دھاندلی کے خلاف احتجاج اور دھرنے شروع ہوگئے تو ملک سیاسی عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہو جائے گا، جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران نے اپنی وننگ اسپیچ میں دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امید ہے کہ وہ حکومت سازی کیلئے مختلف جماعتوں سے رابطوں کے بجائے اس مسئلے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے جشن منانے کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ اقتدار پھولوں کا ہار نہیں، کانٹوں کی سیج ہے۔ کیونکہ عمران خان نے قوم کے ساتھ جو وعدے کئے ہیں اور ملک کو مدینہ منورہ کی طرح فلاحی ریاست بنانے کا جو اعلان کیا ہے، اسے پورا کرنے کیلئے انہیں سخت آزمائش سے گزرنا ہوگا۔ مدنی ریاست کا مطلب ہے: حکمراں خدا اور عوام کو جوابدہ ہیں۔ قانون کی بالادستی ہوگی اور قانون کے آگے شاہ و گدا سب برابر ہوں گے۔ جو فرد جتنے بڑے منصب پر ہے، اس کا احتساب اتنا ہی زیادہ سخت ہوگا۔ احتساب بھی سرعام ہوگا۔ حکومتی خزانے کا ایک ایک پیسہ حد درجہ احتیاط سے خرچ کیا جائے گا۔ مدینہ کے ایک حکمراں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کہا تھا کہ ’’قومی خزانہ (بیت المال) دراصل مالِ یتیم ہے، جس کی ایک ایک پائی کا حکمراں کو جواب دینا ہوگا‘‘۔ وزیر اعظم اور وزراء کے دفاتر اور سرکاری رہائش گاہیں ملک کے متوسط طبقے کے معیار کے مطابق ہوں گی۔ عمران خان نے بھی اپنے پہلے خطاب میں بھی ان امور کی طرف واضح اشارہ کیا ہے اور ان کی ترجیحات بھی واضح ہیں۔ مگر ان باتوں کو عملی جامہ پہنانا اور کامیابی کے ساتھ حکومتی امور چلانا آسان نہیں ہے۔ نئی حکومت کو کئی سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جن میں سرفہرست معیشت اور دہشت گردی ہیں۔ اگرچہ امن و امان کی صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے، تاہم دہشت گردی اب بھی پورے وجود کے ساتھ موجود ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران ہی دہشت گردوں نے کئی خوفناک حملے کرکے قیام امن کے حکومتی دعوئوں کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کئی سال کی پسپائی کے بعد دہشت گرد دوبارہ سے منظم ہو سکتے ہیں۔ اس لئے نئی حکومت کو اس جانب بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ دوسرا اور سب سے بڑا چیلنج پاکستان کی ہچکولے کھاتی ہوئی معیشت کا ہے۔ الیکشن سے قبل ہی معاشی ماہرین کا کہنا تھا کہ خزانہ خالی ہونے کے باعث نئی حکومت کو فوری طور پر 10 سے 15 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ جس کیلئے اسے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ روپیہ کی قدر مسلسل گر رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی سابق سربراہ اور نگراں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے مطابق پاکستان کے ذمے اندرونی اور بیرونی قرضوں کا حجم ساڑھے 24 ہزار ارب یا 24.5 ٹریلین روپے ہے۔ قرض کے اس پہاڑ میں 92 ارب ڈالر بیرون ملک واجب الادا ہیں۔ فچ ریٹنگ ایجنسی نے رواں ماہ خبردار کیا ہے کہ نئی حکومت کے پاس کچھ کرنے کیلئے بہت محدود وقت ہوگا۔ اس سنگین مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے سخت اصلاحات بھی نافذ کرنی ہوں گی۔ مگر اس کیلئے اسے اپوزیشن جماعتوں اور دیگر ریاستی اداروں کی مدد بھی درکار ہوگی۔ ایک نئے قومی معاشی چارٹر کی ضرورت ہے تاکہ بدتر ہوتے ہوئے معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے، جو ہماری قومی سلامتی کیلئے بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں ملک تیزی سے قلت آب کا شکار ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کے پاس گلیشیرز، دریاؤں، مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں پانی موجود ہے، مگر پانی ذخیرہ کرنے کیلئے صرف تین بڑے ڈیم ہیں، اس کے مقابلے میں جنوبی افریقہ یا کینیڈا میں ایک ہزار سے زائد ڈیم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فاضل پانی تیزی سے ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کے بحران سے بچنے کیلئے سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور نئے ڈیمز تعمیر کرنے ہوں گے۔ خارجی چیلنجز بھی نئی حکومت کے منتظر ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات، افغان جنگ، بھارت سے مذاکرات سمیت کئی پیچیدہ مسائل میں پاکستان گھرا ہوا ہے۔ اس لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک جامع اور واضح خارجہ پالیسی بنانا ہوگی۔ اگر اخلاص کے ساتھ جدوجہد کی جائے تو ہر مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ نئی حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہو گی۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More