متحدہ مجلس عمل ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ گیا

0

الیکشن میں بڑی ناکامی کے بعد متحدہ مجلس عمل کے ٹوٹنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے کی اہم رکن جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمان کی مجوزہ احتجاجی تحریک کا حصہ بننے پر تیار نہیں۔ اس حوالے سے جماعت کی قیادت پر ذمے داروں اور کارکنان کا دبائو ہے کہ ایم ایم اے صرف ’’انتخابی اتحاد‘‘ تھا، چنانچہ الیکشن کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں، خصوصاً ایسی بد ترین ناکامی کے بعد۔
واضح رہے کہ متحدہ مجلس عمل حالیہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی 12 نشستیں، خیبر پختون اسمبلی کی 9، بلوچستان اسمبلی کی 10 اور سندھ اسمبلی کی ایک سیٹ ہی حاصل کرسکی ہے۔ ان سیٹوں میں سے جماعت اسلامی کو سندھ میں صوبائی اسمبلی کی ایک اور خیبر پختون میں ایک قومی اور ایک صوبائی کی سیٹ ملی ہے۔ جبکہ 2013ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کو قومی کی 12 اور صوبائی کی 19نشستیں ملی تھیں۔
ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس عمل کو حالیہ الیکشن کیلئے فعال کرنے کے بعد سے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان مسائل کو حل نہ کرنے سے ایم ایم اے انتخابات میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کرسکی۔ اس وجہ سے اب ایم ایم اے کے مقاصد کی تکمیل سے قبل ہی ٹوٹنے کے خدشات پید ا ہوگئے ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی کے بزرگ اراکین کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر جماعت کی قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے میں جا کر جماعت اسلامی نے اپنا اثر کھویا ہے۔ اسی وجہ سے الیکشن میں ماضی کے برعکس کامیابی کے بجائے ناکام کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس تنقید میں اس وقت اضافہ ہوا جب مولانا فضل الرحمان نے الیکشن نتائج تسلیم کرنے کے بجائے دوبارہ الیکشن کرانے، احتجاجی تحریک چلانے اور حلف نہ اٹھانے کا معاملہ اٹھایا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کی جانب سے مرکزی شوریٰ کا اجلاس آج (اتوار کو) لاہور منصورہ میں طلب کیا گیا ہے جس میں شکست کی وجوہات، احتجاجی تحریک میں شامل ہونے یا نہ ہونے سمیت دیگر امور پر مشاورت کی جائے گی۔
ذرائع کے بقول حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان ایم ایم اے میں جانے کی وجہ سے جماعت اسلامی کو ہوا ہے۔ کیونکہ 2013ء کے الیکشن میں خیبر پختون میں اسے صوبائی اسمبلی کی 19 نشستیں ملی تھیں جس کے بعد اس کو 6 خواتین کی مخصوص نشستیں دی گئیں۔ جبکہ قومی اسمبلی کی 12 نشستیں اور ایک سیٹ اس کو قبائلی علاقے سے بھی ملی تھی، جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کے پاس قومی کی کل 13سیٹیں ہوگئی تھیں۔ جبکہ اب ایم ایم اے کا اتحادی ہونے کے باوجود بھی جماعت اسلامی کے امیدواروں میں صر ف مولانا عبدالاکبر چترالی نے پی ٹی آئی کے عبدالطیف کے مقابلے میں 48 ہزار 616 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ دیر بالا سے صوبائی کی ایک سیٹ جیتی ہے جس میں پی کے 12سے مولانا عنایت اللہ نے پی ٹی آئی کے نوید انجم خان کو شکست دے کر 27 ہزار 413 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان سے جماعت اسلامی کو کوئی بھی سیٹ نہیں ملی جبکہ سندھ میں کرا چی میں لیاری کی ایک نشست سے سید عبدالرشید نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار عبدالناصر بلوچ کے مقابلے میں 16ہزار 82 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہے۔
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کو خیبر پختون اسمبلی کی 9 نشستیں ملی ہیں جن میں پی کے 1سے ہدایت الرحمان نے پی ٹی آئی کے اسرا ر الدین سے کامیابی حاصل کر کے 45 ہزار 629 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ پی کے 81 سے شاہ داد خان نے پی ٹی آئی کے امیدوار امتیاز شاہد کو ہرا کر 17ہزار 498 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ پی کے 86 سے ظفر اعظم نے ملک قاسم خان خٹک کو ہرا کر 35 ہزار 354 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ پی کے 91 سے منور خان نے پی ٹی آئی کے جو ہر خان کو ہرا کر 25 ہزار 242 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ پی کے 94 سے محمود احمد خان نے اے این پی کے امیدوار کے مقابلے میں 27 ہزار 651 ووٹ حاصل کئے ہیں۔ پی کے 12 سے عنایت اللہ نے 27 ہزار 413 ووٹ، میاں نثار گل نے 27 ہزار 767 ووٹ لئے ، پی کے 90 سے اکرم خان درانی نے 32 ہزار 801 ووٹ لئے۔ پی کے 93 سے انور حیات خان نے 17ہزار 114ووٹ لئے اور پی کے 98 سے لطف الرحمان نے 19ہزار 808 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ ایم ایم کے پلیٹ فارم سے جمعیت علمائے اسلام کے 9 امیدوار بلوچستان اسمبلی کیلئے کامیاب ہوئے ہیں جن میں پی بی 1 سے حاجی محمد حسن شیرانی، بی پی 20 سے سید محمد فضل آغا، بی پی 25 سے ملک سکندر خان، بی پی 39 سے میر یونس عزیر زہری، پی بی 18سے عبدالواحد صدیقی، پی بی 19 سے اصغر علی ترین، پی بی 22 سے محمد نواز، پی بی 3 سے محمد نور اللہ اور پی بی 41 سے زابد علی الیکشن جیتے ہیں۔ اسی طرح ایم ایم اے نے نیشنل اسمبلی کی 12 نشستیں جیتی ہیں جن میں 11جمیعت علمائے اسلام (ف) نے جیتی ہیں۔ ان میں این اے 11 سے عارفین خان، این اے 45 سے حاجی منیر خان اورکزئی، این اے 51 سے عبدالشکور، این اے 267 سے آغا سید محمود شاہ، این اے 268 سے محمد عثمان بادینی، این اے 257 سے مولانا عبدالواسع، این اے 263 سے صلاح الدین، این اے 36 سے محمد انوار خان، این اے 49 سے مولانا جمال الدین، این اے 62 سے کمال الدین اور این اے 264 سے مولوی عصمت اللہ نے کامیابی حاصل کی ہے۔
جماعت اسلامی خیبر پختون کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ہمیں کم از کم خیبر پختونخواہ میں ایم ایم اے کی حکومت بنانے کی توقع تھی۔ کیونکہ صوبے میں 99 جنرل سیٹیں ہیں اور ہمیں تو امید تھی کہ 60 کے لگ بھگ ہم لے لیں گے جس کے بعد ہم حکومت بنا سکیں گے۔ تاہم خلاف توقع نتائج آئے ہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہت ساری دینی و مذہبی جماعتیں ایم ایم اے کا حصہ نہیں بن سکیں۔ جبکہ 2002ء میں جس طرح تحریک چلی تھی، اس وقت وہ تحریک نہیں چلائی جاسکی۔‘‘ احتجاجی تحریک میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’جماعت اسلامی نے اس حوالے سے مرکزی شوریٰ کا اجلاس لاہور میں بلایا ہے جس میں تمام فیصلے کئے جائیں گے۔‘‘

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More