حلف اٹھانے کے معاملے پر نون لیگ تقسیم ہو گئی

0

منتخب ارکان اسمبلی کے حلف اٹھانے یا نہ اٹھائے جانے کے معاملے پر مسلم لیگ ’’ن‘‘ تقسیم ہو گئی ہے۔ بلکہ بری طرح کنفیوژ بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس صورت حال کا اندازہ مختلف لیگی رہنمائوں اور عہدیداران سے آف دی ریکارڈ اور آن دی ریکارڈ گفتگو سے ہوا۔
واضح رہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے دھاندلی کے خلاف بطور احتجاج منتخب ارکان اسمبلی کے حلف نہ اٹھانے کی تجویز دی تھی۔ تاہم مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر شہباز شریف نے کہا تھا کہ وہ اپنی پارٹی کی مجلس عاملہ سے مشورے کے بعد اس پر کوئی حتمی فیصلہ کریں گے۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو آف دی ریکارڈ بتایا کہ 2018ء کے الیکشن میں منتخب ہونے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت حلف اٹھانے کے حق میں ہے۔ ان ارکان کا موقف ہے کہ پارٹی نے قابل ذکر تعداد میں سیٹیں حاصل کر لی ہیں۔ لہٰذا اصل لڑائی پارلیمنٹ کے اندر لڑنی چاہئے اور ساری توجہ پنجاب حکومت کو حاصل کرنے پر دی جائے۔ حتیٰ کہ پارٹی کے ’’عقاب‘‘ قرار دیئے جانے والے ایک رہنما نے بھی اس کی تصدیق کی۔ یہ رہنما شہباز شریف سے زیادہ مریم نواز گروپ کے حامی تصور کئے جاتے ہیں اور اپنی ہی حکومت کے دور میں زیر عتاب بھی رہے۔ ذرائع کے مطابق منتخب ارکان اسمبلی کی اکثریت کے علاوہ پارٹی کے بیشتر اہم رہنمائوں کی بھی یہی رائے ہے کہ سڑکوں کے بجائے پارلیمنٹ کے اندر جارحانہ رول ادا کیا جائے۔ ان رہنمائوں میں خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، پرویز رشید، احسن اقبال، اقبال ظفر جھگڑا، مصدق ملک اور مریم اورنگزیب شامل ہیں۔ دوسری جانب ذرائع کے بقول حلف نہ اٹھانے کے حامی ارکان کا خیال ہے کہ جس آسرے پر (پنجاب میں حکومت بنانا) جارحانہ احتجاج سے گریز کی پالیسی پر غور ہو رہا ہے وہ خواہش پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی اور یہ واضح ہو چلا ہے کہ مرکز کے ساتھ پنجاب میں بھی تحریک انصاف حکومت بنانے جا رہی ہے۔ اس صورت حال میں جارحانہ احتجاج کی حکمت عملی ترک کی گئی تو پھر اس کا نقصان پارٹی کو ہوگا جبکہ نظریاتی کارکن بھی مایوس ہو جائے گا۔ لہٰذا حلف نہ اٹھا کر جارحانہ پالیسی اپنائی جائے، جن ارکان کو پارٹی چھوڑ کر جانا ہے وہ چلے جائیں کیونکہ حلف نہ اٹھانے کے بعد بھی صورت حال اس سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔
اس سلسلے میں جب مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے میڈیا کوآرڈینیٹر محمد مہدی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا دعویٰ مختلف تھا۔ محمد مہدی کے بقول پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی کی اکثریت حلف اٹھانے کے حق میں نہیں ہے۔ تاہم اس ایشو پر حتمی فیصلہ آج (اتوار کو) پارٹی صدر شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے مجلس عاملہ کے اجلاس میں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ محمد مہدی شریف فیملی سے خاصے قریب تصور کئے جاتے ہیں۔ ایک طرف پارٹی کے سینئر رہنمائوں و عہدیداران کا اصرار ہے کہ اکثریتی ارکان حلف اٹھانا چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ خواجہ آصف نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں کئے جانے والے فیصلے جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہوں گے۔ ایسے میں نون لیگ کے میڈیا کو آرڈینیٹر نے اس کے برعکس بات کر کے کنفیوژن بڑھا دی ہے کہ شہباز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ ’’ن‘‘ اصل میںکرنا کیا چاہتی ہے۔
ادھر ایک اہم پارٹی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف مبینہ دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کے خواہش مند ہیں۔ سابق وزیراعظم نے اپنے بھائی اور پارٹی صدر شہباز شریف کو یہ مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ سے دور رکھیں اور دھاندلی کے خلاف جس قدر ممکن ہو مزاحمت کریں۔ الیکشن کے بعد پہلی مرتبہ جمعرات کو اڈیالہ جیل میں نواز شریف سے ملاقات کرنے والے رہنمائوں میں شامل اس عہدیدار کے مطابق قبل ازیں تمام لوگوں سے ایک بڑے ہال میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر سے ملاقات کرائی گئی۔ بعد ازاں قریباً پون گھنٹے تک نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان علیحدگی میں بھی میٹنگ ہوئی۔ بعد میں مریم نواز بھی اس ملاقات میں شامل ہو گئی تھیں۔ واضح رہے کہ اڈیالہ جیل میں جمعرات کو نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں میں شہباز شریف کے علاوہ مریم اورنگزیب، اقبال ظفر جھگڑا، مصدق ملک، مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر اور دونوں بیٹیاں ماہ نور صفدر اور مہر النسائ، داماد راحیل منیر اور دیگر شامل تھے۔ عہدیدار نے بتایا کہ اس مشترکہ ملاقات میں نواز شریف کو شہباز شریف نے الیکشن اور اس کے نتائج کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ جس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ الیکشن چوری کر لیا گیا ہے اور بعد میں یہ بات میڈیا میں بھی آئی۔ تاہم آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان ون آن ون ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔ عہدیدار کے بقول اس میٹنگ کی ساری روداد سے تو شہباز شریف نے دیگر ملاقاتیوں کو آگاہ نہیں کیا تاہم یہ ضرور بتایا کہ نواز شریف نے شہباز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ موجودہ حالات میں نون لیگ کے منتخب ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ سے دور رکھیں اور سڑکوں پر احتجاج کے لئے بھی کارکنوں کو متحرک کریں۔ جس پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب میں حکومت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہٰذا فی الوقت سڑکوں پر احتجاج مناسب نہیں ہوگا۔ عہدیدار کے بقول نواز شریف نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور جواب میں کہا کہ شہباز شریف اپنی کوشش کر کے دیکھ لیں لیکن انہیں نہیں لگتا کہ پنجاب میں نون لیگ کو حکومت بنانے دی جائے گی۔ نواز شریف کا اس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا ساتھ نہیں دے گی کیونکہ اسے اس کے حصے سے زیادہ مل گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے بعد ماڈل ٹائون میں پارٹی صدر شہباز شریف کی زیر صدارت نون لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا جو اجلاس ہوا۔ اس میں پارلیمنٹ کے بائیکاٹ نہ کرنے پر اتفاق کر لیا گیا تھا۔ اجلاس میں شریک قریباً تمام پارٹی رہنمائوں نے شہباز شریف کی اس تجویز کی حمایت کی کہ جارحانہ سیاست کے بجائے پنجاب میں حکومت بنانے کی کوشش کی جائے۔ دوران اجلاس بعض رہنمائوں کی جانب سے یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ سڑکوں پر احتجاج کا آپشن اختیار کرنے پر شدید جوابی ردعمل کا خدشہ ہے۔ کیونکہ بالواسطہ یہ پیغام پارٹی تک پہنچا دیا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں ملک اس نوعیت کے کسی احتجاج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لاہور میں نون لیگ کے ایک اہم عہدیدار کے مطابق اگر پنجاب میں نون لیگ کو حکومت نہیں دی جاتی جو کہ اب واضح ہو گیا ہے، لہٰذا شہباز شریف اور ان کے حامی رہنمائوں کا یہ بیانیہ دم توڑ رہا ہے کہ احتجاج کے بجائے پنجاب حکومت حاصل کرنے پر توجہ دی جائے۔ جبکہ نواز شریف کا یہ خیال بھی درست ثابت ہو رہا ہے کہ نون لیگ کو پنجاب میں حکومت نہیں بنانے دی جائے گی۔ عہدیدار کے بقول اس وقت پارٹی صدر شہباز شریف سخت کشمکش کا شکار ہیں۔ اور آج (اتوار کو) سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے حلف اٹھانے یا نہ اٹھانے کے بارے میں حتمی فیصلہ کر کے آل پارٹیز کانفرنس میں شریک پارٹیوں کو جواب دینا ہے۔ یہ فیصلہ پارٹی کو نواز شریف کی مشاورت کے بغیر کرنا ہوگا کیونکہ جمعرات سے پہلے سابق وزیراعظم سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کا امکان معدوم ہے۔ عہدیدار کے بقول دوسری جانب شہباز شریف پر پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کا دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ سخت گیر موقف رکھنے والے ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارٹی صدر، نواز شریف کے بیانیہ سے انحراف کر رہے ہیں جبکہ پارٹی ورکرز و ہمدرد سڑکوں پر احتجاج کے لئے شہباز شریف کی کال کے منتظر ہیں۔ ان نظریاتی کارکنوں نے شہباز شریف کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی ایک منظم مہم شروع کر دی ہے۔ جس پر پارٹی قیادت پریشان ہے۔ عہدیدار کے مطابق مبینہ دھاندلی کے خلاف خیبر پختون میں سڑکوں پر ہونے والے احتجاج نے بھی شہباز شریف پر بولڈ فیصلے کے حوالے سے دبائو بڑھا دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مجلس عاملہ کے اہم ترین اجلاس میں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ واضح رہے کہ اس وقت الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف چارسدہ، مانسہرہ، بٹ گرام، صوابی اور مالا کنڈ میں سڑکوں پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More