ایم ایم عالم روڈ پر کب تک تاریکی چھائی رہے گی؟

0

روزنامہ امت کے قارئین یقیناً اس سوچ میں پڑے ہوئے ہیں کہ میں کہاں غائب ہوں؟ ایک ماہ ہو چلا ہے، میرا کوئی کالم شائع نہیں ہوا۔ احوال واقعی یہ ہے کہ میں گزشتہ کئی دنوں سے حالات کے تغیرات میں پھنسا ہوا ہوں۔ کورنگی سے 45 برس بعد کوچ کا سفر، والدہ صاحبہ کی شدید بیماری اور پھر ان کی رحلت کا سانحہ اور کچھ دیگر مسائل اور افکار کے سبب میں کاغذ اور قلم سے کٹ کر رہ گیا ہوں۔ دل و دماغ پر ایک بوجھ ہے، جو ارتکاز اور توجہ کا دشمن ہے، میں نے جب بھی کچھ لکھنا چاہا خیالات کے ہجوم میں پھنستا چلا گیا۔ بہرحال اب میں ’’نئے رحمت کدے‘‘ میں آگیا ہوں۔ والد صاحب سے میں نے سیکھا ہے کہ اپنے گھر کو ’’غریب خانہ‘‘ مت کہا کرو، یہ حق تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایک کشادہ، روشن اور ہوادار دارالسکون اور دارالسکینت عطا فرمایا ہے، شہر کے وسطی شوروشغب سے دور ایک ’’آئیڈیل بستی‘‘ میں ٹھکانہ نصیب ہوا ہے، جس پر میرے گھرانے کا ہر فرد اور میرے بہی خواہ اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اس ہائوسنگ پراجیکٹ کو ’’منی کوہ قاف‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ میری خواہش ہے کہ اسے ’’علم الیقین‘‘ کے بجائے ’’عین الیقین‘‘ سے دیکھا جائے تو مشاہدہ کرنے والا ’’حق الیقین‘‘ کی منزل تک پہنچ جائے گا، میں اس پراجیکٹ کے جزیاتی محاسن و قبائخ پر خامہ فرسائی نہیں کروں گا، کیونکہ اس کے لیے ’’سوشل میڈیا‘‘ میں کافی مواد موجود ہے۔ میری اس تحریر کا مقصد کراچی ایئر پورٹ سے اس ’’میگا ٹائون شپ‘‘ تک 22 کلو میٹرز کی مسافت میں درپیش مسائل کی نشاندہی کرنا ہے، اس سے پہلے امت گزشتہ 6 ماہ میں اس موضوع پر کئی مرتبہ نیوز آئٹم اور کالم شائع کر چکا ہے، اس جدوجہد کے نتیجے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے، مگر کئی مسائل اب بھی حل طلب ہیں اور عوام کی خواہش ہے کہ یہ مسائل حل ہو جائیں اور انہیں مواصلات کی جدید اور محفوظ سہولیات حاصل ہو سکیں، آج میں اپنے کالم میں کے ایم سی کے ’’محکمہ الیکٹریکل اور ٹیکنیکل سروسز‘‘ اور وفاقی وزارت مواصلات اور این ایچ اے کے اعلیٰ حکام کی توجہ مکرر ان مسائل کی طرف دلانا چاہتا ہوں، سپرہائی (موٹر وے)
سے نیشنل ہائی وے تک براستہ ملیر کینٹ اور ماڈل کالونی کے ایم سی نے ایک لنک روڈ تعمیر کیا ہے، یہ سڑک نہایت کارآمد اور عوام کے لیے فائدہ مند ہے، اس پر صفائی ستھرائی اور شجرکاری کے انتظامات خاصے تسلی بخش اور قابل اطمینان ہیں۔ تاہم ملیر کینٹ کے ٹینک چوک سے سپرہائی وے تک اس روڈ پر اسٹریٹ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے یہاں تاریکی چھائی رہتی ہے۔ یہ سڑک پاکستان کے مایہ ناز ہیرو ایئرکموڈور ایم ایم عالم مرحومؒ سے منسوب ہے۔ ایم ایم عالم کا نام پاکستان کی عسکری تاریخ میں روشن چراغوں کی مانند جگمگ کرتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ کے ایم سی فنڈز کی کمی کے سبب اس اہم روڈ پر اسٹریٹ لائٹس نصب نہیں کرا سکی ہے۔ جب میں نے اس ضمن میں کے ایم سی کے متعلقہ افسران سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اس کام کے لیے کے ایم سی نے ایک ’’پرائیویٹ بلڈرز‘‘ سے رابطہ کیا ہے، جو یہاں اسٹریٹ لائٹس لگوا دیں گے۔ میں حیران ہوں کہ پاکستان کی سب سے بڑی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے پاس قومی ہیرو سے منسوب سڑک پر روشنی کے مناسب انتظامات کے لیے فنڈز نہیں ہیں اور اس کام کے لیے وہ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے سامنے جھولی پھیلا رہی ہے۔ ایم ایم عالم روڈ کی ایک جانب ملیر کنٹونمنٹ اور دوسری طرف کراچی ایئر پورٹ جیسے حساس اور اہم علاقے واقع ہیں، یہاں تاریکی اور گھپ اندھیرے کی وجہ سے خدانخواستہ کوئی تخریب کاری بھی ہو سکتی ہے، اسی طرح سپر ہائی وے سے ایم ایم عالم روڈ پر ’’انٹری پوائنٹ‘‘ بھی تاریکی کے باعث ایک خطرناک مقام بن چکا ہے۔ کے ایم سی کے حکام سے گزارش ہے کہ اس جگہ کو روشن کیا جائے اور یہاں ایک پرکشش گارڈن بنایا جائے، جہاں نمایاں الفاظ میں ایم ایم عالم مرحوم کے عظیم الشان کارنامے کی تفصیلات پر مبنی ایک یادگار نصب کی جائے۔ کے ایم سی کے اعلیٰ حکام عوام کو آگاہ کریں کہ قومی ہیرو سے منسوب ایم ایم عالم روڈ پر کب تک تاریکی چھائی رہے گی؟
اس تحریر کا دوسرا مقصد وفاقی وزارت مواصلات، نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور موٹروے پولیس کے حکام بالا کی توجہ ایم نائن موٹروے کی طرف دلوانا ہے۔ ’’امت‘‘ میں متعدد بار نیوز آئٹم اور کالموں کے ذریعے وفاقی حکومت کے مذکورہ اداروں سے گزارش کی گئی تھی کہ سہراب گوٹھ تک موٹروے کی تعمیر کا کام تیزی سے مکمل کرایا جائے۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ ’’امت‘‘ کی نشاندہی پر یہ ٹریک مکمل کر لیا گیا ہے اور اس کے میڈین پر شجرکاری بھی کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی موٹروے کے اپ اینڈ ڈائون ٹریک کے دونوں طرف درخت لگانے کی بھی تجویز ہے۔ ان مثبت اقدامات پر ہم متعلقہ وفاقی اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ایک درخواست یہ ہے کہ موٹروے کے تعمیراتی کام کی فنیشنگ اور صفائی عالمی معیار کی نہیں ہے۔ اس طرف توجہ دینا لازمی ہے، کیونکہ سیاحت اور سرمایہ کاری کی غرض سے غیر ملکی باشندوں کی بڑی تعداد موٹروے کے ذریعے سفر کرتی ہے۔ ان پر ہمارے وطن کے اداروں کا اچھا تاثر پڑنا لازمی ہے۔ موٹروے پولیس کے اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ ٹول پلازہ کے آس پاس کھڑے گداگروں کو وہاں سے ہٹانے کے احکامات جاری کریں۔ ان کی وجہ سے ٹریفک کے حادثات کا اندیشہ ہے۔ ساتھ ہی عالمی سطح پر پاکستان کے سماج کا ایک خراب تاثر ابھرتا ہے۔ موٹروے پر دو مقامات ایسے ہیں، جہاں فلائی اوورز کا تعمیراتی کام ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ ایک بقائی میڈیکل یونیورسٹی کا پوائنٹ اور دوسرا دنبہ گوٹھ… یہاں قدیمی گوٹھوں کے محنت کش عوام کو شمالاً جنوباً مواصلاتی رابطے کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے دو فلائی اوورز کی تعمیر کا کام عرصہ دراز سے رکا ہوا ہے۔ اگر یہ فلائی اوورز مکمل کر دیئے جائیں تو موٹروے کے آر پار رابطے سے عوام کو بے شمار فائدہ ہو گا، اسی طرح موٹروے کے شمالی گوٹھوں اور محنت کشوں کی بستیوں کو باہم مربوط کرنے کے لیے دو رویہ سروس روڈز کی تعمیر کا کام بھی نہایت سست روی اور عدم دلچسپی سے ہورہا ہے۔ برائے مہربانی اس اہم پراجیکٹ کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کر کے غریب اور پسماندہ طبقے کو ریلیف دیا جائے۔
قارئین! میرے قلم کا فوکس اب شمال مشرقی کراچی اور گڈاپ ٹائون ڈسٹرکٹ ملیر پر ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے آپ کے فیڈ بیک کا انتظار ہے۔ شکریہ۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More