ڈاکٹر صابر حسین خان
بچپن اور نوجوانی میں بذریعہ بس اور ٹرین اتنے سفر کئے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب سفر کا سُن کر وحشت ہونے لگتی تھی۔ میرپور خاص سے کراچی اور پھر کراچی سے میرپور خاص اور پھر لاہور، ملتان، سرگودھا۔ نوکری شروع ہوئی تو سفر کم ہوتے ہوتے ختم ہوگئے۔ اور شب و روز ایک ہی رنگ میں گزرنے لگے۔ یہاں تک کہ کراچی کے اندر اندر بھی آنا جانا نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ کہاں وہ وقت تھا جب ایک دِن بھی پورے کا پورا، گھر میں گزارنا کٹھن لگتا تھا اور روزانہ ہی کسی نہ کسی دوست کے ہمراہ، اُس کی بائیک پر پیچھے بیٹھ کر یہاں وہاں کا چکر لگنا لازمی ہوتا تھا اور کچھ نہیں تو یونہی گھنٹے دو گھنٹے کیلئے سڑکوں کی سیر ہوا کرتی تھی اور کہاں وہ وقت آیا جب کسی تقریب میں شرکت یا کسی رشتہ دار کے گھر جانے سے بھی دل کترانے لگا۔ کہاں وہ وقت جب دوستوں کا ہجوم ساتھ رہتا تھا۔ ایک ابھی جاتا نہیں تھا کہ دوسرا آجاتا تھا۔ آہستہ آہستہ سب چُھٹتا چلا گیا۔ مصروفیات کا محور بدلتا گیا۔ کاغذ، قلم اور کتابوں کے ساتھ کے علاوہ سبھی کام، سبھی معمولات، سبھی دلچسپیاں بدلتی گئیں۔
کئی سال Pulse Global کی اردو ترجمے والی انگریزی فلمیں VCR پر دیکھی جاتی رہیں۔ پھر وڈیو کیسٹ کا زمانہ بھی ختم ہوا۔ VCR پر آخری فلم دیکھے ہوئے بھی غالباً 14 – 15 سال گزر چکے۔ فلموں کا سلسلہ البتہ چلتا رہا CD کی شکل میں اور اب گزشتہ 8 – 10 برس سے یہ مشغلہ بھی تقریباً نہ ہونے کے برابررہ گیا ہے۔ اِس متحرک تصویری سفر کا اگلا پڑائو انگریزی ڈراموں کے سیزن ہیں، جو اب چل رہے ہیں۔ مگر مخصوص اور مختلف کہانیوں والے۔ زندگی کے سفر میں ہم سب یونہی ان گنت جسمانی، ذہنی اور جذباتی سفروں کے مراحل طے کرتے رہتے ہیں۔ کہیں کم کہیں زیادہ، سبھی کی زندگی اِس طرح کے بے شمار سفروں کی کہانیوں سے بھری ہوتی ہے۔ سفر کسی بھی طرح کا ہو، جسمانی یا ذہنی یا قلبی اور یا پھر روحانی۔ ہر سفر ہماری زندگی پر کچھ نہ کچھ اثرات ضرور مرتب کرتا ہے۔ کچھ نہ کچھ ضرور سکھاتا ہے۔ کوئی نشان، کچّا یا پکّا، ضرور چھوڑتا ہے۔ اور ہماری زندگی کے اگلے مرحلے میں پرانے سفروں کا رنگ، تھوڑا یا بہت، کسی نہ کسی شکل میں ضرور جھلکتا ہے۔
میں آج جو کچھ ہوں، جیسا ہوں، جس طرح سوچتا، محسوس کرتا اور عمل کرتا ہوں، میری شخصیت اور نفسیات میں میرے موروثی Genes، تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ اُن تمام جسمانی، ذہنی، جذباتی، روحانی اور رویّہ جاتی سفروں اور تجربوں کی گھاس پھوس شامل ہے۔ جو اب تک کی زندگی میںگزرے اور گزارے ہیں۔ آپ بھی اس لمحے جو کچھ ہیں اُس میں آپ کی موروثیت، تعلیم اور تربیت کے ساتھ اُن گزرے لمحات کے رنگ موجود ہیں، جو آپ نے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، دل سے یا بے دلی سے گزارے ہیں۔ ہم میں سے جس کی زندگی زیادہ طرح کے حادثات اور تجربات سے گزری ہوتی ہے۔ جِس کی زندگی ان گنت طرح کے سفروں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جو ہزار ہا لوگوں سے قریبی اُنسیت اور تعلقا ت روا رکھتا ہے۔ جِس کے دائرے میں مختلف النّوع حوالہ جات موجود ہوتے ہیں۔ جِس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے۔ اُس کی شخصیت اور نفسیات دیگر لوگوں سے از خود ذرا مختلف ہوتی چلی جاتی ہے۔ ذرا زیادہ ہمہ جہت اور متنوّع بنتی چلی جاتی ہے۔ روٹین کی زندگی گزارنے والوں سے ذرا ہٹ کے دکھائی دینے لگتی ہے۔
اب اِسی بات کو دیکھئے۔ آج تہیّہ کیا تھا کہ اس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فلسفہ نہیں بگھارنا۔ کوئی مشکل باتیں نہیں کرنی۔ بس اسے ایک ہلکے پھلکے سفر نامے کی شکل دینا ہے۔ بہت دنوں سے بہت مشکل باتیں ہو رہی ہیں۔ آج قطعاً ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی۔ لیکن ہوا کیا۔ اچھا بھلا لکھتے لکھتے، حسبِ عادت ذہنی رَو بھٹکی اور بات کہاں سے کہاں آگئی۔
بات ہو رہی تھی سفر کی۔ کچھ دن پہلے پھر قدرت نے موقع فراہم کیا اور MIND AND HEART کے موضوع پر تین روزہ سیمینار میں شرکت کیلئے ملکہ کوہسار مری کی وادیوں میں سے ایک بھوربن میں دو راتیں گزارنے کا بہانہ بن گیا۔ بہت دنوں بعد اس مختصر سفر میں لطف آیا۔ حالانکہ اسلام آباد ایئر پورٹ سے پرل کانٹی نینٹل بھوربن تک اور تیسرے روز دوبارہ براہِ راست ہوٹل سے ایئر پورٹ تک کا سفر تھا۔ کہیں اور آنا جانا نہیں ہوا اور اکیڈمک سیشن کے دو دن گزارنے کے بعد لگ بھگ پورا ایک دن اپنے ساتھ، اپنے خیالوں اور اپنی تنہائیوں میں رہنے سے روحانی، ذہنی اور قلبی انرجی چارج ہوتی رہی اور جسمانی تھکن کو دور کرتی رہی۔
بہت کم اکیڈمک سیشن دلچسپ اور Interactive ہوتے ہیں۔ یہ Pfizer فارماسیوٹیکل کا ایک منفرد اور خوبصورت اور بھرپور تعلیمی اور Innovative آئیڈیا تھا کہ ملک بھر سے ایک ہی سیمینار میں ماہرین امراضِ قلب اور ماہرین نفسیات و ذہنی امراض کو جمع کیا اور موضوع بھی اتنا مختلف اور دلچسپ تھا کہ مختلف ماہرین کے لیکچرز کے درمیان، سگریٹ پینے کیلئے باہر جانا بھی کَھل رہا تھا۔ پورے پروگرام کا Objective بھی واضح اور Visionary تھا۔ علمِ طبّی نفسیات کے بنیادی علاج اور نکات سے دیگر شعبوں کے ڈاکٹرز خصوصاً فیملی فزیشنز اور ماہرین امراضِ قلب(CARDIOLOGISTS) کو آگاہ کرنا اور اُن کو وہ بنیادی معلومات فراہم کرنا، جِن کی مدد سے وہ اپنے اپنے کلینکس میں آنے والے اسٹریس (اعصابی دبائو)، اینگزائٹی (گھبراہٹ) اور ڈپریشن (یاسیت) کے مریضوں کی علامات کو دو چار منٹ میں Identify کرلیں اور اُن کو انتہائی اور بنیادی نفسیاتی و اعصابی ادویات تجویز کر سکیں۔
کیونکہ ہمارے ملک کے ان گنت المیات میں سے ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ 23 کروڑ مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں میں بہ مشکل پچاس ساٹھ لاکھ ایسے بالغ افراد ہوں گے، جو ذہنی، اعصابی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کی علامات اور وجوہات کو ذہن، دماغ، اعصاب اور نفسیات ہی سمجھتے ہیں۔باقی ماندہ کروڑوں افراد بشمول اچھے خاصے سمجھدار، تعلیم یافتہ اور پـڑھے لکھے لوگ، اِس بات کو ماننے سے ہی انکاری ہیں کہ نفسیاتی امراض کا مطلب پاگل پن یا ذہنی توازن کے بالکل بگڑجانے کے علاوہ بھی کچھ اور ہو سکتا ہے، جبکہ درحقیقت ذہنی توازن کا خراب ہو جانا یا عرفِ عام میں پاگل پن، علمِ طبّی نفسیات کا پانچ فیصد سے زیادہ حصّہ نہیں ہوتا۔
عام کلینکس سے لیکر دل ، سینے، معدے، خون، ہڈیوں، جگر کے ماہر ڈاکٹرز کے چیمبرز میں آنے والے مریضوں کا ساٹھ سے ستّر فیصد تناسب ایسے لوگوں پر مبنی ہوتا ہے، جِن کی علامات تو بظاہر جسمانی ہوتی ہیں، لیکن وجوہات اعصابی اور نفسیاتی ہوتی ہیں۔ مگر چونکہ عام طور پر جسمانی امراض کے ماہرینِ طب، ذہنی ونفسیاتی امراض کی شناخت اور درست علاج سے متعلق آگہی نہیں رکھتے، لہٰذا مرض پلتے رہتے ہیں اور مریضوں کی تکلیف کم ہونے کے بجائے بڑھتی رہتی ہے۔ پھر ایک مسئلہ اور بھی ہوتا ہے کہ عمومی و خصوصی جسمانی امراض کے ماہر ڈاکٹرز، عام طور پر اِس بات کو اپنی قابلیت کے خلاف سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے مریضوں کو ماہرین طبّی نفسیات یا سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیج دیں، تو وقت پر مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے علامات کی شدّت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ گزشتہ 27 برسوں سے پاکستان میں مستند سائیکاٹرسٹ ڈاکٹرز کی تعداد 350 – 400 سے زیادہ بڑھ نہیں پا رہی۔ ہر سال نئے اسپیشلسٹ ماہرین ذہنی امراض اپنی پریکٹس شروع کرتے ہیں تو اُتنے ہی یا اُن سے زیادہ سائیکاٹرسٹ بہتر معاشی مستقبل کی خاطر بیرونِ ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بڑی حد تک اُن کا یہ اقدام صحیح بھی ہے کہ جب مریض دیگر ڈاکٹرز اور بلا وجہ کے لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹس کی بھرمار کے بعد رو پیٹ کر آخر کار صحیح جگہ یعنی سائیکاٹرسٹ کے پاس پہنچتے ہیں تو اُس وقت تک اُن کا مرض بھی شدید ہوچکا ہوتا ہے اور اُسے ٹھیک کرنے میں زیادہ وقت زیادہ دوائوں کی ضرورت پڑتی ہے اور ساتھ ساتھ فضول کے ٹیسٹ اور دیگر ان گنت ڈاکٹرز کی فیس دے کر مریضوں کی جیبیںبھی خالی ہو چکی ہوتی ہیں۔ نتیجتاً اُن کو آخری اور صحیح علاج بہت گراں گزرتا ہے اور وہ علامات کے مکمل ختم ہونے سے پہلے ہی علاج ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔
ایک عام جنرل پریکٹیشنرز کی اوسط فیس اِس وقت 200 سے 300 روپے ہوتی ہے۔ 5 – 10 منٹ کے معائنے اور 20 – 30 روپے کی ادویات کے ساتھ۔ ایک اوسط درجے کا Eye یا ENT کا سرجن ڈاکٹر گھنٹے بھر کے آپریشن کی فیس 10 – 20 ہزار لیتا ہے۔ معائنہ فیس 500 – 1000 الگ ہوتی ہے۔ میجر سرجری کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے۔ کم سے کم بھی 20 – 40 ہزار میں ایک آپریشن ہوتا ہے۔ لیکن سائیکاٹرسٹ اگر ایک گھنٹے کے سیشن کے 2 ہزار بھی چارج کرتا ہے تو وہ مریضوںکو بھاری گزرتا ہے کہ اِس نے کیا، کیا ہے۔ صرف باتیں ہی تو کی ہیں۔
اِس عمومی عوامی سوچ اور ماحول میں پھر یہی ہوتا ہے جو ہورہا ہے کہ ایک طرف تو ذہنی اور نفسیاتی امراض میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف اِن امراض کے ماہرین ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو رہے ہیں اور ذہنی امراض کے شکار لوگ صحیح رہنمائی اور صحیح علاج نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے پر بوجھ بنتے چلے جا رہے ہیں اور دن بہ دن Collective Productivity کم ہوتی جارہی ہے۔
اِس صورتحال میں بیچ کا راستہ یہی نکلتا ہے کہ دیگر جسمانی امراض کے ماہر ڈاکٹرز اور فیملی فزیشنز کی نفسیات اور ماہرین نفسیات کے ساتھ Introduction بڑھایا جائے اور بنیادی ذہنی و نفسیاتی امراض کی شناخت اور ابتدائی علاج کے حوالے سے ایسے Refreshing کورسز، سیمینارز اور ورکشاپس مستقل بنیادوں پر کروائے جاتے رہیں۔ جِن میں ماہرین نفسیات کو جنرل میڈیسن اور جسمانی امراض سے متعلق معلومات ملتی رہیں اور دیگر ڈاکٹرز نفسیاتی امراض کے علاج کے حوالے سے خود کو Update کرتے رہیں۔ تبھی ہم تیزی سے بڑھتے ہوئے ذہنی امراض کے بروقت علاج کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ بصورت دیگر وہ وقت دور نہیں جب ہم سب غم اور غصّے کی شدّت سے ایک دوسرے کا گریبان پھاڑ رہے ہوں گے اور تماشائی بھی بیچ بچائو کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے اُلجھ رہے ہوں گے۔
اِن مناظر کے Trailors ہم سب اب تقریباً روزانہ ہی دیکھ رہے ہیں۔ اپنے اردگرد، اپنے محلّے اپنے شہر میں، اپنے ملک کے ہر محلّے ہر شہر ہر گائوں میں۔ اعصابی دبائو یا اسٹریس میں ہمارے اندر کا پریشر بڑھتے بڑھتے، برداشت کے Threshold کو توڑ کر جب باہر نکلتا ہے تو ہمارے لبوں پر گالیاں اور ہمارے ہاتھوں میں لاٹھیاں آجاتی ہیں اور ہم اپنے پرائے کا فرق بھول کر درندوں سے بھی زیادہ بھیانک چہرے بنا کر ایک دوسرے کو چیرنے پھاڑنے کھانے، دوڑنے لگتے ہیں۔
اندر کے پریشر کو کم کرنے کے طریقوں میں سے ایک بہترین طریقہ سفر کا ہے اور اگر سفر جسمانی ہو، اختیاری ہو اور اپنی پسند کا ہو، تو وہ اعصابی دبائو اور ڈپریشن کو بہت حد تک گھٹانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ہماری یکسانیت سے پُر Monotonous زندگی میں ایسے کچھ نئے رنگ ضرور دیتا ہے، جو ہمارے غم، غصّے اداسی اور تنہائی کے احساسات کو کم کردیتے ہیں۔
بھوربن کے دو دن کے سفر میں گو چلتے پھرتے بہت سے Colleagues سے بات چیت رہی، لیکن ایک نئے شخص سے ملاقات اور ایک نئی ہلکی پھلکی داستان نے میرے اعصابی دبائو میں بھی کمی پیدا کی۔ دوسری رات کا کھانا P.C. کے سوئمنگ پول کے اطراف میں تھا۔ وہاں سے واپسی پر لابی میں بیٹھے اسٹروپامسٹ عاصم محمود سے گھنٹے بھر کی ملاقات رہی۔
’’آپ کی کتنی فیس ہے، ہاتھ دیکھنے کی؟‘‘ کھانے سے واپسی پر میں نے پوچھا۔ ’’دو ہزار‘‘۔ سرخ و سفید گول چہرے والے عاصم محمود نے جواب دیا۔ میں نے کاندھے پر ڈالا بیگ اتار کر زمین پر رکھ دیا اور عاصم کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’آپ کی اجازت ہے تو میں یہ سیشن ریکارڈ کروں گا‘‘۔ بیٹھے بیٹھے میں نے عاصم سے پوچھا۔ ’’ہاں! کوئی بات نہیں۔ آپ کرلیں۔‘‘ عاصم نے جواب دیا اور پھر Magnifying Glass لیکر میرے ہاتھوں کی لکیریں دیکھنے لگا۔
عاصم نے آدھے گھنٹے میں کافی کچھ بتایا۔ مگر ایسا کچھ نہیں بتایا جو میرے علم میں پہلے سے نہ تھا۔ پھر میں نے ہاتھ دکھاتے دکھاتے، ہاتھ دکھانا شروع کر دیئے اور عاصم کے ہاتھ دیکھنے لگا۔ کافی دیر تک لکیروں پر گفتگو ہوتی رہی۔ حسبِ عادت عاصم سے اُس کی زندگی کے بارے میں بھی دریافت کرتا رہا۔ خوبصورت شکل، دل، دماغ اور شخصیت کا مالک۔ پاکستان کے تقریباً سبھی بڑے چھوٹے سیاست دانوں کے ہاتھ دیکھے ہوئے اور بہت سوں سے تو ذاتی تعلق روا رکھے ہوئے۔ یہاں تک کہ سندھ کے کئی سیاستدان off & on عاصم کو اپنے خرچے پر اپنے پاس بلواتے ہیں اور اپنے مسئلوں کا حل دریافت کرتے ہیں۔ زائچہ، پتھر، نمبر اور جانے کیا کیا۔ مگر چونکہ میری دلچسپی اور معلومات کا دائرہ محض شخصیت کی شناخت بذریعہ پامسٹری تک محدود رہتا ہے، تو میں نے عاصم کے دیگر کاموں کے حوالوں سے زیادہ استفسار نہیں کیا۔ ایک گھنٹے کی گفتگو کے بعد عاصم مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں کراچی میں ہاتھ دیکھنے کے کتنے پیسے Charge کرتا ہوں۔ اس کی یہ بات سن کر دل کو اطمینان ہوا کہ ڈاکٹرز کے تشخیص کردہ کسی مریض پر یکساں مرض کی ڈائیگنوسس کی طرح اگر ہاتھوں کی لکیریں پڑھنے والے دو پامسٹ بھی ایک جگہ جمع ہو جائیں تو ہاتھ دیکھ کر اُن کی تشخیص بھی انیس بیس کے فرق سے ایک جیسی ہوتی ہے۔ گفتگو کے اختتام پر اُٹھتے وقت میں نے اپنا تعارف کرایا تو عاصم کو اور حیرت ہوئی۔ وہ فیس بھی لینے سے انکاری ہوگیا۔ لیکن پھر بھی اصرار کر کے میں نے ہزار روپے دے دیئے۔ باقی ہزار عاصم نے نہیں لیے۔
دو دن کے سفر میں عاصم محمود سے ملاقات، طبیعت کیلئے تازہ ہوا کا تیسرا جھونکا ثابت ہوئی۔Mind & Heart تنہائی، یکسوئی اور ایک نئے انسان کی کہانی۔ آپ بھی سفر کے بہانے ڈھونڈتے رہا کریں۔ آپ کی شخصیت میں بھی تازہ ہوا کے جھونکے آتے رہیں گے اور بدن کی تھکن دور ہونے کے ساتھ دل، دماغ اور روح کی بے چینی بھی دور ہوتی رہے گی۔ ضروری نہیں کہ سفر جسمانی ہی ہو۔ ذہنی، قلبی اور روحانی سفر کی منازل تو ہم ایک جگہ بیٹھے بیٹھے طے کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہماری نیّت سفر برائے سفر کی نہ ہو، بلکہ سفر وسیلہ ظفر کی ہو۔ پھر ایک سفر، کئی سفروں کے راستے کھول دیتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post