ہزاروں بھارتی اساتذہ نے طلاق کا مطالبہ کردیا

0

سدھارتھ شری واستو
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ہزاروں استادوں اور استانیوں نے حکومت اور وزیر تعلیم سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی دور دراز علاقوں میں پوسٹنگ ختم کی جائے، ورنہ انہیں طلاق دلائی جائے، کیونکہ اس طرز زندگی سے گھریلو مسائل سر اٹھانے لگے ہیں۔ دور دراز مقامات پر پوسٹنگ کے نتیجے میں اساتذہ اپنے ہی گھر والوں کیلئے اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کی اپنے اہلخانہ، بیوی بچوں کے ساتھ ملاقات کو ایک ایک ماہ ہو جاتے ہیں اور گھر کے کئی اہم کام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بھارتی محکمہ تعلیم کے قوانین کے مطابق ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے میاں بیوی کی آپسی پوسٹنگ کا مقام کسی بھی حالت میں 30 کلو میٹر سے زیادہ دور نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اس صورت میں میاں بیوی کے سماجی اور خانگی تعلقات پرمنفی اثر پڑتا ہے۔ لیکن اس قانون کی موجودگی اور نفاذ محض کاغذات تک ہی محدود ہے اور اس وقت ساڑھے تین ہزار سے زائد استاد میاں بیوی ایک دوسرے سے سینکڑوں کلومیٹر دوری پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور انہوں نے انسانی و سماجی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر ریاستی وزارت تعلیم سے تحریری طور پر یہ انوکھا مطالبہ کر دیا ہے کہ یا تو ان کا تبادلہ کردیا جائے یا ان کو طلاق دلوائی جائے۔ اپنی نوعیت کے اس انوکھے مطالبے کے حوالہ سے مقامی بھارتی جریدے نو بھارت ٹائمز نے بتایا ہے کہ ریاست کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے ایسے اساتذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے، جن کی پوسٹنگ گھر والوں سے سینکڑوں کلومیٹر دور تعلیمی اداروں میں کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان کو روز روز اسکول یا تعلیمی اداروں میں جانے کی مشقت اُٹھانے کے بجائے انہی علاقوں میں کمرے یا مکان کرائے پر لینے کا سخت فیصلہ لینا پڑا ہے، جس کی وجہ سے ان کی ازدواجی اور خانگی زندگی میں بھونچال آیا ہوا ہے اور وہ تعلیم شعبہ کی خدمات کی وجہ سے اپنے ہی گھر والوں کیلئے اجنبی بن گئے ہیں۔ جب وہ ایک ماہ کے بعد محض ایک دن کیلئے گھر آتے ہیں تو گھر والوں کو ان کے جانے کی فکر ستانے لگتی ہے۔ دوسری جانب ڈیپارٹمنٹ میں تعینات دونوں ٹیچرز اگر آپس میں میاں بیوی ہیں تو ان کا حال سب سے زیادہ برا ہے، کیونکہ میاں بیوی اپنی اپنی پوسٹنگ پر الگ الگ موجود ہوتے ہیں اور انہیں بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کے ساتھ ساتھ آپس میں ملاقات کرنا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے، جس سے آپسی تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارتی وزیر تعلیم اور دیہی ترقی پن کجا منڈے کا ماننا ہے کہ قانون کی موجودگی کے باوجود میاں بیوی یا ٹیچرز کی دور دراز پوسٹنگ کے معاملے کی مکمل معلومات لی جا رہی ہیں اور اگلے تین ماہ میں اس سلسلے میں معاملات کو آسان بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ مقامی بھارتی صحافی لکشمن تائوڑے نے بتایا ہے کہ مہاراشٹر کے سینکڑوں ضلعی اسکولوں میں ایسے استادوں اور استانیوں جن کی تعداد 3,600 سے زائد ہے، جو اپنے گھر والوں سے دور رہنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی ضلعی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کی گئی پوسٹنگ گھر سے کم از کم 200 اور زیادہ سے زیادہ 350 کلومیٹر ہے۔ دور دراز پوسٹنگ کی وجہ سے ان کا روزانہ اسکول ٹائم پر پہنچنا ایک مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے یا تو مقامی اسکولوں کے پاس اپنے رشتے داروں کے گھر پر پے انگ گیسٹ کے طور پر قیام رکھا ہوا ہے یا اسکول کے آس پاس کوئی کھولی یا کمرہ مناسب کرائے پر لیا ہوا ہے، جہاں یہ استاد حضرات مقیم رہتے ہیں اور اپنا کھانا خود پکانے کے علاوہ کپڑے بھی خود دھولیتے ہیں یا لانڈری پرواش کرواتے ہیں اور مہینے بھر اپنی رخصت اتفاقیہ کو بچاتے ہیں اور مہینے کے اختتام پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو چھٹیوں کی چٹھی لکھ کر منظور کرواتے ہیں اور یوں مہینے بھر بعد اپنی بیوی بچوں یا شوہر بچوں سے سینکڑوں کلومیٹر کی دوری پر واقع گھر جاکر ملاقات کرتے ہیں۔ لکشمن تائوڑے کا دعویٰ ہے کہ ان کے علم میں ایسے ٹیچرز بھی ہیں جن کی وائف یا شوہر کی ایک ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ دوری کے مقامات پر پوسٹنگ دی گئی ہے۔ یعنی ان کا آپس میں ملاقات کا واحد دن مہینے کا اختتام ہے، کیونکہ بھارت میں ریلوے نظام کے باعث ایک ہزار کلومیٹر کی دوری پر آنے اور جانے کا مطلب یہی ہے کہ آپ کم از کم 48 گھنٹے کا سفر کریں۔ مہاراشٹر کی معروف سماجی کارکن تروپتی ڈیسائی نے بتایا ہے کہ یہ ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے، جس کے حل کیلئے وہ ایک وفد کی صورت میں وزیر تعلیم اور دیہی ترقی پن کجا منڈے سے ملاقات کر چکی ہیں۔ واضح رہے کہ مہاراشٹر ریاست میں ایسے استادوں اور استانیوں کی ایک تنظیم بھی قائم ہے، جس کے ارکان کی بیویاں یا شوہر دور دراز مقامات پر تعینات ہیں اور ان کی نصف تعداد 50 فیصد آپس میں رشتہ ازواج سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی شوہر اور بیوی دونوں ٹیچرز ہیں لیکن ان کی الگ الگ پوسٹنگ ہیں اور ان پوسٹنگ مقامات کا آپس میں فاصلہ 100 سے 350 کلو میٹر یا اس سے بھی زیادہ ہے اور اس وجہ سے ان میاں بیوی کا یا استادوں کا اپنے گھر والوں سے روزانہ کا رابطہ ختم ہوچکا ہے اور کسی قسم کی دکھی بیماری یا ایمر جنسی میں ان کا واحد رابطہ انٹرنیٹ کی ویڈیو کال یا ٹیلی فونک کالز ہیں۔ ممبئی میں ایک مقامی استاد بھیم رائو نے تصدیق کی ہے کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں موجود استادوں کا حال بہت برا ہے۔ پوسٹنگ والے استاد اور استانیاں اپنا گھر بار ہونے کے باوجود سیکڑوں کلو میٹر دور کرائے پر رہائش رکھنے اور چھڑے چھانٹ افراد کی طرح کھولیاں کرائے پر لے کر رہنے پر مجبور ہیں، اسی لئے انہوں نے مہاراشٹر سرکار سے مانگ رکھی ہے کہ ہمیں گھر کے پاس پوسٹنگ دی جائے یا طلاق دلوائی جائے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More