نون لیگ کے مضبوط بلدیاتی قلعہ میں نقب لگانے کا ٹاسک علیم خان کے سپرد

0

امت رپورٹ
تحریک انصاف کی قیادت نے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے مضبوط بلدیاتی قلعہ میں نقب لگانے کا ٹاسک صوبائی وزیر بلدیات علیم خان کو دے دیا ہے۔ اس وقت اگرچہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے متعدد چیئرمین اور وائس چیئرمین علیم خان کے رابطے میں ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس کام میں اصل تیزی چہلم کے بعد آئے گی۔ اس سلسلے میں نامزد گورنر پنجاب چوہدری سرور کا بھی کردار ہو گا۔ تاہم ذرائع کے بقول پارٹی قیادت نے ان کو بنیادی ٹاسک اوورسیز پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ کرنے کا دیا ہے۔ دوسری جانب اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے صوبے کی بیورو کریسی اور محکمہ پولیس میں اپنے قابل اعتماد لوگوں کو لانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے ایک قریبی ذریعے کے مطابق اس وقت چوہدری پرویز الٰہی کا اصل مشن مسلم لیگ ’’ق‘‘ کو دوبارہ مضبوط بنانا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت میں شمولیت سے جو مواقع انہیں دستیاب ہیں، انہیں اپنی پارٹی کے احیا کے لئے استعمال کریں۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں 11 میونسپل کارپوریشنز اور ایک میٹرو پولیٹن کارپوریشن (لاہور) کے لئے کل 12 میئر ہیں۔ ان تمام 12 میئرز کا تعلق مسلم لیگ ’’ن‘‘ سے ہے۔ ان میں لاہور کے میئر کرنل (ر) مبشر جاوید، فیصل آباد کے میئر رزاق ملک، ملتان کے میئر چوہدری نوید آرائیں، گوجرانوالہ کے میئر شیخ ثروت اکرام، سرگودھا کے میئر ملک اسلم نوید، ساہیوال کے میئر اسد بلوچ، سیالکوٹ کے میئر چوہدری توحید اختر، گجرات کے میئر حاجی ناصر محمود، بہاولپور کے میئر عقیل نجم ہاشمی، ڈیرہ غازی خان کے میئر شاہد حمید چانڈیا اور راولپنڈی کے میئر سردار نسیم شامل ہیں۔ اگر وفاقی دارالحکومت کے میئر شیخ انصر عزیز کو بھی شامل کر لیا جائے تو مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے میئرز کی تعداد 13 ہو جاتی ہے۔ 2015ء کے بلدیاتی الیکشن میں پنجاب کے دیگر کئی اضلاع سے بھی مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے کلین سوئپ کیا تھا اور متعدد اضلاع میں نون لیگ کے ہی چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل منتخب ہوئے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب کے کل 36 اضلاع میں سے 25 اضلاع اس وقت مسلم لیگ ’’ن‘‘ کا مضبوط قلعہ ہیں۔ جہاں اس کے میئرز اور چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسلز کا ہولڈ ہے۔ تاہم نواز شریف کی گرفتاری کے بعد پیدا صورت حال کے سبب اس مضبوط بلدیاتی قلعہ میں دراڑ کے آثار نمایاں ہیں۔ ذرائع کے بقول نون لیگ کے سینکڑوں بلدیاتی نمائندوں کو نواز شریف کی غیر موجودگی میں پارٹی کی موجودہ قیادت بالخصوص حمزہ شہباز سے سخت شکایات ہیں۔ ان میں ہی سے ایک وائس چیئرمین نے بتایا کہ اگرچہ نواز شریف کی گرفتاری سے پہلے بھی صوبے کے انتظامی امور اور بلدیاتی معاملات شہباز شریف اور حمزہ شہباز دیکھتے تھے اور یہ کہ اس وقت بھی بلدیاتی نمائندوں کی ایک بڑی تعداد بالخصوص حمزہ شہباز کے رویہ سے ناراض تھی۔ تاہم نواز شریف کی گرفتاری کے بعد پارٹی کی غیر یقینی پالیسی نے ان کی ناراضگی میں مایوسی کا عنصر بھی شامل کر دیا ہے۔ نتیجتاً بلدیاتی نمائندوں کی ایک بڑی تعداد پرواز بھرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ دوسری جانب سیالکوٹ اور شیخو پورہ سے تعلق رکھنے والے دو ارکان صوبائی اسمبلی کے بقول صرف بلدیاتی نمائندوں کا ہی ایشو نہیں، ارکان صوبائی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد بھی حمزہ شہباز سے اس وقت خوش نہیں۔ زیادہ تر کو شکایت ہے کہ مشکل وقت میں بھی حمزہ شہباز کے متکبرانہ رویے میں تبدیلی نہیں آئی ہے اور وہ ماضی کی طرح اب بھی ارکان صوبائی اسمبلی کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے۔ جبکہ شہباز شریف اس وقت وفاق کی سیاست میں مصروف ہو چکے ہیں، لہٰذا ان کے پاس ویسے ہی فرصت نہیں۔ نون لیگ کے ان ارکان اسمبلی کے بقول پارٹی کے صوبائی ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد نے پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کو بطور اپوزیشن لیڈر قبول نہیں کیا ہے۔ جب حمزہ شہباز کو اس منصب کے لئے نامزد کیا گیا تھا تو اس وقت بھی بیشتر ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی۔ یہ ارکان حمزہ شہباز کی جگہ خواجہ سعد رفیق کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر دیکھنا چاہتے تھے۔ جبکہ ان کی دوسری چوائس ایم پی اے میاں مجتبیٰ شجاع تھے۔ تاہم ان دونوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ حمزہ شہباز کے ایک قریبی ذریعے کے بقول الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے حمزہ شہباز کو خاصا اپ سیٹ کر رکھا ہے۔ ان کی جھنجھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن کے بعد سے اب تک وہ اپنے چھ ملازمین کو نوکری سے فارغ کر چکے ہیں۔ ان ملازمین میں ان کا ایک ذاتی ڈرائیور، دو کک اور تین گھریلو کام کاج کے لئے رکھے گئے ملازم شامل ہیں۔ جبکہ حمزہ شہباز کے گھر کا سیکورٹی افسر بھی تلخ کلامی کے بعد سے اب تک واپس نہیں لوٹا ہے۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے اندرونی ذرائع کے مطابق حکمراں جماعت کی طرف سے بلدیاتی نمائندوں کی طرف ہونے والی پیش قدمی سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت بخوبی آگاہ ہے۔ اس کا علم جیل میں قید نواز شریف کو بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز نے جیل سے باہر آنے کی صورت میں حکومت کے خلاف مجوزہ تحریک کا جو پلان بنا رکھا ہے، اس میں پارٹی کے بلدیاتی نمائندوں نے کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ لہٰذا اگر بلدیاتی نمائندوں کی ایک قابل ذکر تعداد ساتھ چھوڑ گئی تو یہ نواز شریف اور مریم نواز کے لئے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔
صوبائی وزیر بلدیات علیم خان اس وقت نون لیگ کے متعدد چیئرمینوں، وائس چیئرمینوں اور کونسلروں سے رابطے میں ہیں۔ نامزد گورنر چوہدری سرور کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ نون لیگ کے ان بلدیاتی نمائندوں کی چوہدری سرور سے بھی ملاقاتیں کرائی جا رہی ہیں۔ خود وہ بھی ایسے کئی بلدیاتی نمائندوں کو لے کر ان کے پاس پہنچا ہے، جو نون لیگ کے ساتھ مزید چلنے کے خواہش مند نہیں۔ ذریعے کے بقول پلان کے مطابق اگر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے قابل ذکر بلدیاتی نمائندوں کو توڑنے میں کامیابی حاصل ہو گئی تو پھر پہلے مرحلے میں میئر لاہور کرنل (ر) مبشر جاوید کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر انہیں فارغ کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ بعد ازاں فیصل آباد کے میئر رزاق ملک اور پھر بالترتیب ملتان کے میئر چوہدری نوید آرائیں، گجرات کے حاجی ناصر محمود، ڈیرہ غازی خان کے شاہد حمید چانڈیا اور بہاولپور کے عقیل نجم ہاشمی کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ ذریعے نے بتایا کہ نامزد گورنر چوہدری سرور کو پارٹی نے اصل ہدف یہ دیا ہے کہ وہ مضبوط مالی حیثیت رکھنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری پر آمادہ کریں۔ اس سلسلے میں چوہدری سرور نے ابتدائی رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ ذریعے کے مطابق ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے عوض اوورسیز پاکستانیوں کو یہ پیشکش کی جا رہی ہے کہ اگلے برس ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں پاکستان میں موجود ان کے عزیزوں کو ٹکٹ دیئے جائیں گے۔
ادھر اسپیکر پنجاب اسمبلی کے ایک قریبی ساتھی نے بتایا کہ چوہدری پرویز الٰہی نے حکومت میں شمولیت کے بعد مسلم لیگ ’’ق‘‘ کے احیا کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اس پلان کا ہدف ایک برس رکھا گیا ہے۔ قریبی ساتھی کے بقول چوہدری پرویز الٰہی نے جو پلان ترتیب دیا ہے، اس کے مطابق پارٹی کو دوبارہ مین اسٹریم میں لایا جائے گا۔ تاکہ اگلے برس بلدیاتی الیکشن میں پوری طاقت کے ساتھ قاف لیگ کے نمائندوں کو میدان میں اتارا جائے۔ اس مشن میں کامیابی ملنے کی صورت میں اگلا ہدف آئندہ کے عام انتخابات ہوں گے۔ اس حوالے سے ان کی دبئی میں موجود پرویز مشرف سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔ قریبی ساتھی نے بتایا کہ فی الوقت اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کی بیورو کریسی اور محکمہ پولیس میں اپنے قریبی لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ ماضی میں پرویز الٰہی کے پی آر او رہنے والے امجد حمید بھٹی جو بعد ازاں پی سی بی میں ڈائریکٹر میڈیا بن گئے تھے، پرویز الٰہی نے ان کی خدمات واپس لے لی ہیں اور اب انہیں ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز (ڈی جی پی آر) بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح ماضی میں چوہدری پرویز الٰہی کے قریب سمجھے جانے والے چار اعلیٰ پولیس افسران جو اس وقت بلوچستان میں تعینات ہیں، انہیں بھی واپس پنجاب لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان پولیس افسران کو شہباز شریف نے اپنے دور میں صوبہ بدر کیا تھا۔ مذکورہ پولیس افسران کو وفاق کو رپورٹ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ بعد ازاں انہیں پنجاب میں تعینات کیا جائے گا۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More