بھارت آگ سے کھیل رہا ہے

0

کشمیر وہ خطہ ہے، جس کی ماضی میں مثال خوبصورتی، سرسبز و شادابی، قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑوں، دنیا کے بہترین پھلوں، میوؤں، برف پوش پہاڑی سلسلوں، حسین وادیوں، یہاں کے باسیوں کے مثالی اخلاق اور جفاکشی، اسلام دوستی، محبت و بھائی چارے، دنیا کے مختلف خطوں میں کشمیری نوجوانوں کی مثالی خدمات اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے دی جاتی تھی اور کشمیر کا ذکر آتے ہی انہی چیزوں کا تصور ذہن میں آتا تھا، مگر آج جب کوئی شخص کشمیر کا ذکر کرتا ہے تو فوراً جلاؤ گھیراؤ، فوجی کیمپ، عورتوں کی عصمت دری، خوف، ظلم وستم، تشدد، غلامی، مایوسی، قتل وغارت، بچوں کا تاریک مستقبل، تقسیم در تقسیم، لائن آف کنٹرول اور بھارتی تسلط کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود کشمیریوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ بے انتہا جانی و مالی نقصانات کے باوجود کشمیر کے عظیم سپوتوں نے اپنی آزادی کا سودا نہیں کیا۔ تنازع کشمیر کو دنیا کا قدیم ترین تنازع کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر نام نہاد مہذب دنیا نے اس تنازع کا حل نہیں کیا تو شاید دنیا میں پہلی باقاعدہ عالمی ایٹمی جنگ اور پھر دنیا کی ایک بڑی تباہی کا سبب کشمیر ہی بنے گا۔ کشمیریوں کی جرأت و بہادری اور بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول کی جدوجہد سے اظہار یکجہتی کے طور پر پاکستانی قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔
ریاست جموںو کشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادی کشمیر، جموں، کارگل، لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریاست آبادی کے حساب سے اقوام متحدہ کے 140 اور رقبے کے حساب سے 112 رکن ممالک سے بڑی ہے۔ مذکورہ بالا تمام ریجنوں کی اپنی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق 10 کروڑ سال قبل یہ خطہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا، مگر آہستہ آہستہ خطے کی سرزمین وجود میںآئی اور اس عمل کو بھی 10 کروڑ سال گزر چکے ہیں۔
ہزاروں سال کی تاریخ کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو کبھی کشمیر کی ریاست دہلی سے کابل، کبھی لداخ سے سندھ کے ساحل کراچی تک پھیلی نظر آتی ہے اور کبھی اسی ریاست میں درجنوں چھوٹی بڑی آزاد ریاستیں نظر آتی ہیں۔ آج کی دنیا میں جس ریاست کی بات کی جاتی ہے، وہ 15 اگست 1947ء میں قائم ریاست جموںو کشمیر اور اقوام متحدہ میں یہی پوری ریاست متنازعہ کشمیر قرار پائی۔ 15 اگست 1947ء تک قائم ریاست جموں و کشمیر کا مجموعی رقبہ 84 ہزار 471 مربع میل ہے۔ یہ ریاست دنیا کے تینوں پہاڑی سلسلوں (قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش) پر محیط ہے۔ اس کی سرحدیں مجموعی طور پر 5 بڑے ممالک پاکستان، بھارت، چین، روس (تاجکستان) اور افغانستان سے ملتی ہیں۔
اس وقت ریاست جموں و کشمیر 4 حصوں میں تقسیم ہے، جو 3 ممالک پاکستان بھارت اور چین کے کنٹرول میں ہے۔ پاکستان کے پاس 28 ہزار میل گلگت بلتستان اور تقریباً ساڑھے 4 ہزار مربع میل آزاد کشمیر، بھارت کے پاس وادی کشمیر، جموں اور کارگل لداخ جب کہ چین کے پاس 10 ہزار مربع میل اقصائے چین کا علاقہ ہے۔ البتہ چین کے زیر کنٹرول علاقے میں کوئی آبادی نہیں ہے۔ یہ علاقہ چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ کا حصہ ہے۔ چین نے کچھ علاقہ 1963ء میں پاک چین معاہدے کے تحت عارضی طور پر حاصل کیا ہے۔
بھارت نے ایک بار پھر کشمیریوں کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ امریکہ اور بھارت کی دوستی رنگ لارہی ہے۔ اس کا ثبوت امریکی محمکہ خارجہ کے ترجمان کا تازہ ترین انٹرویو ہے، جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کہا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کو مسئلہ کشمیر کا حل خود تلاش کرنا ہوگا۔ اس موقع پر ترجمان نے مقبوضہ کشمیر میں 45 کے قریب ہلاکتوں، 300 سے زاید افراد کے زخمی ہونے اور بچوں و بوڑھوں پر مظالم کی مذمت سے دانستہ گزیر کیا۔ اس چشم پوشی کے بعد کسی ملک کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر پیش کرے۔ اس موقع پر انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ننگی جارحیت و بربریت کا بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
کشمیریوں کی جنگ، بھارت کے کالے قوانین کے خلاف نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی مرضی کا مستقبل چاہتے ہیں۔ وہ آزادی سے رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جس کے لیے انہوں نے غلامی کی زنجیرین توڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار بھارت نے ان کا سکھ چین چھین رکھا ہے۔ لیکن اس تمام جبرو استبداد کے باوجود کشمیری نسل در نسل آزادی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ کشمیریوں نے سب سے زیادہ قیمتی عزت و جان کی قربانی دی۔ اس سے زیادہ ان کے پاس دینے کو کچھ ہے بھی نہیں۔ مودی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیئے، لیکن کشمیریوں کا عزم اور حوصلہ دیکھ کر مودی حکومت بدنام زمانہ انیل دشمانا کو ’’را‘‘ کا چیف مقرر کیا ہے، تاکہ نئی منصوبہ بندی کے ساتھ کشمیریوں کو کچلا جائے۔
کشمیریوں کے جائز و قانونی حق خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد کو دبانے کے لیے بھارت تمام تر غیر جمہوری، غیر انسانی اور فسطائی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا جاتا ہے، زیر حراست شہادتیں اور عوام کو لاپتہ کر کے گمنام قبروں میں دفن کردینا معمول بن چکا ہے۔ آزادانہ نقل و حرکت اور تحریر و تقریر پر پابندی عائد ہے اور کشمیریوں کی جائیدادوں کو تباہ کرنا کرنا بھارتی سرکار کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ اپنے مکروہ مجرمانہ مقاصد کے لیے بھارت نے کشمیر میں سات لاکھ باقاعدہ فوج، سی پی آر ایف کے پچاس ہزار اہلکار، مقامی پولیس کے 74 ہزار نفری، جنہیں بھارت کے انسانیت سوز کالے قوانین کی چھتری حاصل ہے۔ قابض بھارتی فوج تمام قوانین سے ماورا، جنگل کا قانون استعمال کرتے ہوئے، معصوم اور نہتے کشمیریوں کو شہید کرسکتی ہے، ان کی تذلیل کرسکتی ہے، بے گناہ کو گرفتار اور قید کر کے غائب کر سکتی ہے۔
بھارتی فوج نے 1989ء سے لے کر آج تک 94504 کشمیریوں کو شہید کیا، جن میں سے 7062 زیر حراست شہید ہوئے۔ 10,000 نوجوانوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کردیا گیا۔ 22824 عورتوں کو بیوہ، 107586 بچوں کو یتیم کیا گیا۔ ہندو فوجیوں نے 10433 عزت مآب خواتین کی عصمت پامال کی۔ 106261 دکانیں اور مکانات تباہ کئے گئے، جب کہ قابض افواج نے 13434 بے گناہ کشمیریوں کو گرفتار کیا۔ ان انسانیت سوز اقدامات کے باوجود کشمیر کے بہادر عوام بھارت سے لڑنے کے لیے پر عزم ہیں۔ بھارت کی سفاکیت اور بربریت پر مشتمل پالیسیاں حریت پسند عوام کو حق خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد سے نہیں روک سکتیں۔ کشمیری جان پر کھیل کر آزادی کی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے بین الاقوامی برادری کی طرف خاص طور پر اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر عمل کے لیے اقدام کرے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت نے اپنی منفی پالیسیوں پر نظرثانی نہ کی، کشمیریوں کے حقوق کو پامال کرتا رہا اور دوسری طرف پاکستان میں انارکی پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا تو ایک دن دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہوں گی، بالخصوص ان حالات میں جب کہ مشرقی وسطیٰ آگ میں جل رہا ہے، وہاں خانہ جنگی نے اپنے قدم مضبوطی جما رکھے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان اور بھارت میں ٹکراؤ پوری عالمی برادری کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے بھارت کشمیریوں پر مظالم ڈھا کر آگ سے کھیل رہا ہے۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More