عمر مختار-اسلام کا صحرائی شیر

0

مولانا عمر مختارؒلیبیا کے ایک بلند پایہ عالم دین تھے۔ وہ تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ طلباء میں جذبہ جہاد کی روح بھی پھونکتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام قوت و عزت اور راہ خدا میں جہاد کرنے کا دین ہے۔ عیسائیوں کے خلاف سب سے پہلے انہوں نے آواز اٹھائی۔ جب انہوں نے بن غازی (لیبیا کا دارالحکومت) پر حملہ کیا تو مولانا برق رفتاری سے وہاں پہنچے اور اس شہر سے بیس کلو میٹر دور اپنا مرکز قائم کر کے ہزاروں مجاہدین کو جمع کر لیا اور عیسائیوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے۔
عمر مختار 1862ء میں جنزور نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1912ء میں لیبیا پر اٹلی کے قبضے کے خلاف اگلے 20 سال تک تحریک مزاحمت کی قیادت کی۔ اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر پہنچے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارافیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے، بصورت دیگر شہر تباہ کر دیا جائے گا۔ حالانکہ لیبیائی باشندوں نے شہر خالی کر دیا، لیکن اٹلی نے ہر صورت حملہ کرنا تھا اور انہوں نے تین دن تک طرابلس پر بمباری کی اور اس پر قبضہ کر لیا۔ یہیں سے اطالوی قابضوں اور عمر مختار کی زیر قیادت لیبیائی فوجوں کے درمیان میں جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
عمر مختار جو معلم قرآن تھے، صحرائی علاقوں سے بخوبی واقف تھے اور وہاں لڑنے کی حکمت عملیوں کو بھی خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے علاقائی جغرافیہ کے بارے میں اپنی معلومات کا اطالوی فوجوں کے خلاف بھرپور استعمال کیا۔ وہ اکثر و بیشتر چھوٹی ٹولیوں میں اطالویوں پر حملے کرتے اور پھر صحرائی علاقے میں غائب ہو جاتے۔ ان کی افواج چوکیوں، فوجی قافلوں کو نشانہ بناتی اور رسد اور مواصلات کی گزرگاہوں کو کاٹتی۔
عمر مختار کی زیر قیادت مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے اطالویوں نے نئی چال چلی اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو عقوبت گاہوں میں بند کر دیا۔ ان عقوبت گاہوں کا مقصد یہ تھا کہ مزید لیبیائی باشندوں کو عمر مختار کی مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے سے روکا جائے۔ ان کیمپوں میں ایک لاکھ 25 ہزار باشندے قید تھے، جن میں سے دو تہائی شہید ہو گئے۔
اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قید کرنے کے باوجود عمر مختار کی تحریک رکی نہیں، بلکہ انہوں نے اپنے ملک اور عوام کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھی۔
انہوں نے بیس برس میں عیسائیوں کے خلاف سو سے زیادہ جنگیں لڑیں۔ خود عیسائیوں کا کہنا ہے کہ ایسا جنگجو اور باصلاحیت کمانڈر پہلے نہیں دیکھا۔
لیکن باہر سے کسی مسلمان ملک سے امداد نہ مل سکی اور وہ جبل اصغر میں محصور ہو کر رہ گئے۔ آخری معرکہ میں ان کے ساتھ صرف بیس یا پچیس سپاہی رہ گئے۔ وہ بھی ایک ایک کر کے شہید ہو گئے۔ مولانا عمر آخری گولی تک برابر لڑتے رہے۔ اس دوران دشمن کی ایک گولی ان کے ہاتھ پر لگی جو چھلنی ہو گیا۔ لیکن رائفل دوسرے ہاتھ میں تھام کر بڑی ہمت و جرأت سے دشمن پر فائر کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اسلحہ ختم ہو گیا۔ بالآخر عیسائیوں نے انہیں گرفتار کر کے اپنے کمانڈر جنرل گرزیانی کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت ان کی عمر ستر سال تھی۔
جنرل نے پوچھا کہ تمہارے بڑھاپے پر ترس کھا کر اگر ہم تمہیں چھوڑ دیں تو کیا باقی زندگی پرامن رہنے کا وعدہ کرتے ہو؟ (مسلمان یقیناً امن پسند اور پرامن ہے، باقی سب غیر مسلم اقوام وحشی ہیں جیسا کہ حال ہی میں افغانستان اور عراق کی جنگوں سے عیاں ہو چکا ہے)
بزرگ مجاہد نے اپنے مومنانہ عزم کے ساتھ فرمایا: جب تک تمہیں اپنے ملک سے نکال نہیں دیتا یا خود شہید نہیں ہوتا تمہارے خلاف لڑتا رہوں گا۔ اس وقت ان کی عمر 70 سال سے زیادہ تھی اور اس کے باوجود انہیں بھاری زنجیروں سے باندھا گیا اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ ان پر تشدد کرنے والے فوجیوں نے بعد ازاں بتایا کہ جب انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا یا تفتیش کی جاتی تو وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرآن مجید کی آیتیں تلاوت کرتے۔ ان پر اٹلی کی قائم کردہ ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور سزائے موت سنادی گئی۔ تاریخ دان اور دانشور ان پر عائد مقدمے اور عدالت کی غیر جانبداری کو شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان سے جب آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا۔ انہیں 16 ستمبر1931ء کو سرعام پھانسی دے دی گئی کیونکہ اطالوی عدالت کا حکم تھا کہ عمر مختار کو پیروکاروں کے سامنے سزائے موت دی جائے۔
چنانچہ ہزاروں طرابلسی مسلمانوں نے اشک بار آنکھوں سے ستر سالہ اس شیر دل عظیم اور مثالی بزرگ کو تختہ دار پر چڑھتے ہوئے دیکھا، جس نے اسلام زندہ باد کے فلک شگاف نعرہ کے ساتھ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنی جان اسلام کے نام پر حق تعالیٰ جل شانہٗ کے حوالے کر دی۔
ان کی تصویر لیبیا کے 10 دینار کے نوٹ پر چھپی ہوئی ہے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ نے 1981ء میں ان کی زندگی پر ایک فلم دی لائن آف ڈیزرٹ یعنی ’’صحرا کا شیر‘‘ بنائی۔
علامہ محمد اقبالؒ نے طرابلس کے ایسے ہی شہدا کے لیے حضور اکرمؐ کی بارگاہ میں عرض کیا تھا۔
جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
ایک شاعر نے کہا ہے:
ہری ہے شاخ تمنا ابھی جلی تو نہیں
عشق کی آگ ہے دل میں ابھی بھجی تو نہیں
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے برسر میدان مگر جھکی تو نہیں

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More